قدیم عربوں میں حروفِ مقطعات کا رواج

تفہیم القرآن میں حروف مقطعات کے بارے میں آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ یہ اسلوب شعراے جاہلیت میں معروف تھا جو بعد میں متروک ہوگیا۔ اس سلسلے میں چند معروضات ہیں : (۱) کیا اس کی مثال شعراے جاہلیت کے اشعار میں یا خطبا کے خطبوں میں ملتی ہے؟ (۲) صحابہ کرامؓ کے اقوال میں اس کے اثبات میں کچھ منقول ہے؟ (۳) کیا حروف مقطعات کا اسلوب اگر بعد میں متروک ہوگیا، تو یہ ’’عربیِ مبین‘‘ کے خلاف تو نہیں ؟
جواب

حروف مقطعات کے متعلق تفصیلی مطالعہ و تحقیق کی اگر آپ کو فرصت نہ ہو تو صرف ’’لسان العرب‘‘ کی پہلی جلد میں باب تفسیر الحروف المقطعۃ ہی دیکھ لیجیے۔ اس میں اول تو یہ معلوم ہوگا کہ مفسرین نے ان کی مختلف تعبیریں کی ہیں ۔ پھر مشہور ماہر لغت الزّجّاج کا یہ قول آپ کو ملے گا کہ اہل عرب ایک حرف بول کر کوئی ایسا کلمہ اس سے مراد لیتے تھے جس میں وہ حرف پایا جاتا ہو۔ اس کی مثال میں انھوں نے یہ مصرع پیش کیا ہے کہ: ع
قُلْتُ لَھَا قِفِی فَقَالَتْ قِ
یعنی ’’قِ‘‘ سے مراد ہے اَقفُ۔ اسی طرح انھوں نے یہ شعر بھی مثال کے طور پر نقل کیا ہے: ع
نَادَیْتُھُمْ أَنْ أَ لْجِمُوا الَاتَا قَالُوا جَمِیْعاً کُلُّھمْ اَلَافَا ({ FR 2082 })
یعنی الَاتا سے مراد ہے اَلَاتَرْکَبُوْنَ اور الَاَفا سے مراد اَلا فَارْکَبُوْا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ طرزِ بیان قدیم اہل عرب میں رائج تھا، اس لیے وہ ایسے حروف کا مدعا سمجھ لیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نزولِ قرآن کے زمانے میں کسی عرب نے ان حروف کے استعمال پر اعتراض نہیں کیا۔ لیکن بعد میں چونکہ یہ رائج نہیں رہا، اس لیے قرآن مجید کے تمام حروف مقطعات کا مطلب متعین کرنا، یعنی یہ معلوم کرنا کہ ہر حرف کس کلمہ پر دلالت کرتا ہے، مشکل ہوگیا ہے۔ اسی وجہ سے ان کی دلالت متعین کرنے میں اختلافات ہوئے ہیں اور کسی ایک تعبیر پر اتفاق نہیں ہوسکا ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ اتنے کثیر مقامات پر قرآن مجید میں ایسے حروف کا استعمال، جن کے معنی اب ٹھیک ٹھیک متعین نہیں ہوسکتے، اس کتاب کے عربی مبین ہونے میں قادح تو نہیں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کے معنی معلوم نہ ہونے سے اس ہدایت میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا جو انسان کو قرآن میں دی گئی ہے۔ اگر اس میں کوئی ادنیٰ سا خلل بھی واقع ہونا ممکن ہوتا تو اللّٰہ تعالیٰ خود ان کی تشریح فرما دیتا یارسول اللّٰہ ﷺیہ فریضہ انجام دیتے۔ (ترجمان القرآن، اگست ۱۹۷۵ء)