قرآن اور کتب مقدسہ کی تصدیق

قرآن جگہ جگہ یہودی اور مسیحی کتب کوالہامی کتابوں کی حیثیت سے پیش کرتا ہے مگر بائبل کے بہت سے علما اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ کتابیں محض تاریخی دستاویزیں ہیں جن میں سے بعض کو ایک سے زیادہ مصنفوں نے تیار کیا ہے اور ان کے اندر الہامی ہونے کی شہادت کم ہی ملتی ہے۔اب کیا قرآن ان کتابوں کے معاملے میں وحی والہام کو کسی مخصوص معنی میں استعمال کرتا ہے؟کیا بائبل کے علما کی راے غلط ہے؟یا ہم یہ فرض کریں کہ محمدﷺ کے بعد یہودیوں اور عیسائیوں کی کتب مقدسہ میں کوئی تغیر ہوگیا ہے؟
جواب

قرآن مجید جن کتابوں کی تصدیق کرتا ہے ،وہ پرانا’’ عہد نامہ‘‘ اور’’نیا عہد نامہ‘‘ نہیں ہیں بلکہ تورات،زبور اور انجیل ہیں ۔تورات کو یہودیوں نے ایک مستقل کتاب کی حیثیت سے نہیں رکھا بلکہ اس کے مختلف اجزا پرانے عہد نامہ کی پہلی پانچ کتابوں میں بنی اسرائیل کی تاریخ کے اندر شامل(incorporate) کردیے۔ آپ ان کتابوں میں سے اس تورات کے اجزا کو اس علامت کی مدد سے چھانٹ سکتے ہیں کہ جہاں جہاں کوئی عبارت اس طرح شروع ہوتی ہے کہ خداوند نے موسیٰ ؑ سے یہ کہا ،یا خدا نے یہ حکم دیا، یا موسیٰ ؑ نے بنی اسرائیل کو خطاب کرکے یہ تقریر کی، وہاں غالباً اس تورات کا کوئی جز نقل کیا گیا ہے۔یہی صورت زبور کی بھی ہے کہ پرانے عہدنامے کی پوری کتاب ’’زبور‘‘(Psalms) نہیں بلکہ صرف زبور دائود (Psalms of David) کی قرآن نے تصدیق کی ہے اور اس کے اجزا کتاب زبور میں شامل پائے جاتے ہیں ۔ ایسا ہی معاملہ انجیل کا بھی ہے کہ اس کو پیروانِ مسیح؈ نے ایک مستقل کتاب کی حیثیت سے محفوظ نہ رکھا بلکہ مسیح؈ کے سوانح نگاروں (متی، مرقس،لوقا،یوحناوغیرہ) نے اپنی اپنی کتابوں میں اس کے وہ حصے درج کردیے ہیں جو ان کو زبانی روایات کے ذریعے سے پہنچے تھے، اور انھیں اس علامت کی مدد سے چھانٹا جاسکتا ہے کہ مسیح ؈نے یوں کہا،یا مسیح ؈ نے یہ تمثیل دی،یا لوگوں کو خطاب کرکے یہ وعظ کہا۔
آپ میری اس نشان دہی پر پرانے اور نئے عہدنامے میں تورات،زبور اور انجیل کے ان اجزا کو چھانٹ لیں اور پھر قرآن کا ان سے مقابلہ کرکے دیکھیں ۔آپ کو خود معلوم ہوجائے گا کہ ان کی تعلیم اور قرآن کی تعلیم میں بہت کم اختلاف پایا جاتا ہے ،اور جو تھوڑا سا اختلاف ہے، اس کی بھی یہ معقول توجیہ کی جاسکتی ہے کہ قرآن اپنے اصل الفاظ میں ایک مستقل کتاب کی حیثیت سے موجود ہے،اور وہ تینوں کتابیں نہ اپنے اصل الفاظ میں محفوظ رکھی گئی ہیں ({ FR 2140 })اور نہ انھیں ایک مستقل کتاب کی حیثیت سے باقی رہنے دیا گیا ہے۔میرے لیے یہ کہنا مشکل، ہے کہ آیا محمد ﷺ کے زمانے میں یہ تینوں کتابیں مستقل کتابوں کی حیثیت سے موجود تھیں یا نہیں ، لیکن کم ازکم تورات کے متعلق یہ بات خود پرانے عہد نامے کے بیانات سے بھی({ FR 2141 }) اور ہمارے ہاں کی احادیث سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ یہودیوں کے ہاں یہ ایک مدت تک ایک مستقل کتاب کی حیثیت سے پائی جاتی تھی اور محمدﷺ کے زمانے میں اس کا ایک نسخہ مدینے کے یہودیوں کے پاس موجود تھا۔
(ترجمان القرآن ،اکتوبر۱۹۵۵ء)