قرآن فہمی میں علوم طبیعی کی واقفیت کا مقام

کیا عالم طبیعی کے متعلق انسان کا روز افزوں علم( بذریعہ طبیعیات، کیمیا، ہیئت وغیرہ)انسان کو قرآن زیادہ اچھی طرح سمجھنے کے قابل بنا دیتا ہے؟
جواب

اس میں شک نہیں کہ انسان کاعلم دنیا اور اس کے حقائق کے متعلق جتنا زیادہ بڑھے گا،اس کو قرآن میں اتنی ہی زیادہ بصیرت حاصل ہوگی۔ لیکن اس سے نہ تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ محمدﷺ اور اُن کے براہِ راست شاگردوں سے بھی زیادہ قرآن کو سمجھنے لگے گا،اورنہ یہی نتیجہ نکل سکتا ہے کہ جو شخص بھی علم ہیئت، طبیعیات اور کیمیا وغیرہ کے ذریعے سے دنیا کا خوب علم حاصل کرلے،وہ لازماً قرآن کو بہتر سمجھنے والا قرار پائے۔قرآن کے صحیح فہم کے لیے ہر چیز سے مقدم یہ شرط ہے کہ آدمی اس کو خدا کی کتاب مانے، اس کو سرچشمۂ ہدایت تسلیم کرے، ان ضروری علوم سے واقف ہو جو قرآن کو سمجھنے کے لیے درکار ہیں ،اور پھر اپنا کافی وقت قرآن اور اسلامی نظام فکر وحیات پر غور وفکر کرنے میں صرف کرے۔لیکن اس کے باوجود کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ اس پیغمبر سے بھی بڑھ کر قرآن کو سمجھنے والا ہے جسے خود خدا نے اپنی کتاب کی تعلیم دینے کے لیے مقرر کیا تھا(یا آپ لوگوں کے نزدیک خود اس کتاب کا مصنف تھا)۔ ( ترجمان القرآن،اکتوبر ۱۹۵۵ء)