قصر نماز میں امن اور خوف کی شرط

صلاۃ قصر کے بارے میں بھی قرآن وضاحت کرتا ہے کہ صرف پُرخطر سفر جہاد میں ہی نمازمیں قصر کیا جاسکتا ہے۔کیا عام پرامن سفر میں قصر خلاف قرآن نہیں ہے؟
جواب

قصر کے متعلق سوال کرنے میں بھی آپ وہی غلطی کررہے ہیں جو وضو کے معاملے میں آپ نے کی ہے۔[سوال نمبر۶۸] قرآن کے منشا کی تعبیر میں قرآن لانے والے رسول کی توضیح وتشریح کو نظر انداز کردینا ایک بہت بڑی غلطی ہے جس کی بے شمار قباحتوں میں سے چند کی طرف میں اوپر اشارہ کرچکا ہوں ۔قرآن صرف حالت خوف میں قصر کی صورت بتاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس حالت میں امام کے سوا دوسروں کے لیے صرف ایک رکعت بھی کفایت کرتی ہے۔اس حکم میں کہیں حالت امن کے قصر کی نفی نہیں ہے۔ یہ دوسرا حکم ہم کو نبی ﷺکے ذریعے سے پہنچا ہے،اور وہ یہ ہے کہ سفر کی حالت میں صبح اور مغرب کے فرض تو پورے پڑھے جائیں ، البتہ ظہر، عصر اورعشا کے فرضوں میں صرف دو دو رکعتیں پڑھ لی جائیں ۔ اس قصر کو جو شخص خلاف قرآن کہتا ہے وہ دو بڑی غلطیاں کرتا ہے۔ایک یہ کہ وہ کسی حکم کے قرآن میں نہ ہونے اور خلاف قرآن ہونے کو ایک چیز سمجھتا ہے،حالاں کہ ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔دوسرے یہ کہ وہ نبیﷺ کے واسطے کو درمیان سے ہٹا کر براہ راست قرآن کو لینا چاہتا ہے، حالاں کہ قرآن اُس کے پاس براہ راست نہیں آیا، بلکہ نبی ﷺ کے واسطے سے آیا ہے، اور خدا نے یہ واسطہ اسی لیے اختیار کیا ہے کہ نبیﷺ اسے قرآن کا منشا سمجھائے۔کیا وہ شخص یہ کہنا چاہتا ہے کہ خدا نے یہ واسطہ فضول ہی اختیار کیا؟ (ترجمان القرآن ، فروری۱۹۵۳ء)