قیادت کی حکمت عملی

یہ امر تو مسلّم ہے کہ شارع کو خود اپنے احکام میں تغیرو تبدل کرنے اور تقدیم و تاخیر کرنے یا ان میں رخصتیں دینے اور استثنا نکالنے کے اختیارات حاصل ہیں ، مگر کیا شارع کے ان تصرّفات پر قیاس کرکے اور ان سے کچھ اصول مستنبط کرکے دوسرے بھی انھیں نئے پیش آمدہ مسائل پر چسپاں کرنے کا اختیار رکھتے ہیں ؟ اور یہ اختیار آخر کس کو حاصل ہے؟‘‘
جواب

بجز ان امور کے جو خصوصیات نبوی میں شمار کیے گئے ہیں ، باقی تمام معاملات میں شارع کا قول، فعل، تقریر، غرض شارع کے جملہ تصرفات ایک ماخذ قانون کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ان کے نظائر پر قیاس کرکے نئے حوادث کے لیے حکم نکالنا اور ان سے اصول مستنبط کرکے پیش آمدہ مسائل پر انھیں منطبق کرنا ہی فقہ اسلامی کا مدارِ کار ہے۔ اس قیاس و استنباط کے اختیارات مختلف لوگوں کو ان کے دائرہ کار کے لحاظ سے حاصل ہوتے ہیں ، مفتی اور قاضی، صدر ریاست اور مجلس وزرا‘ مجلس شوریٰ اور اس کی کمیٹیاں ‘ محکمہ جنگ اور محکمہ مال‘ محکمہ خارجیہ اور محکمہ داخلیہ، غرض اسلامی نظام کا ہر شعبہ اپنے اپنے کام اور منصب سے متعلق امور میں انھیں استعمال کرے گا۔ فوج کے ایک کمانڈر کو میدان ِجنگ میں اور پولیس کے ایک سپاہی کو بازاروں اور محلوں میں جس وقت اچانک کسی معاملے سے سابقہ پیش آئے گا اسی وقت اور اسی جگہ اسے یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ میں شرعاً اس موقع پر کیا کچھ کرنے کا مجاز ہوں ۔ یہی نہیں ، ایک عام شہری بھی اگر مخمصے میں مبتلا ہو تو اس وقت کوئی مفتی نہیں بلکہ وہ شخص خود ہی یہ فیصلہ کرنے کا مجاز ہو گا کہ آیا یہ حالت وہ ہے یا نہیں جس میں اس کے لیے حرام چیز کھا لینا جائز ہو۔ اگر اس کی جان مال یا آبرو پر حملہ ہو رہا ہو تو اسی کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ آیا حفاظت ِخود اختیاری میں اس کے لیے اس وقت کسی ایسی جان کو ہلاک کرنا جائز ہے یا نہیں جسے اﷲ نے حرام کیا ہے۔ اگر زچگی کے موقع پر ماں اور بچے کی جان ایک ساتھ بچا لینا ممکن نظر نہ آئے تو اس وقت ایک دایہ ہی یہ فیصلہ کرے گی کہ آیا یہ وقت وہ ہے یا نہیں جس میں وہ ایک نفس کی ہلاکت کی ذمہ داری اپنے اوپر لے۔ غرض ایک نوعیت کے معاملات جس شخص سے متعلق ہوں ان میں فیصلہ کرنا اسی کا کام ہے اور اس طرح کے فیصلوں کی صحت کا مدار دو چیزوں پر ہے۔ ایک یہ کہ آدمی واقعی قانونِ الٰہی کے اتباع کی نیّت رکھتا ہو۔ دوسرے یہ کہ کتاب و سنّت میں اس کے فیصلے کے لیے کوئی ما ٔخذ پایا جاتا ہو۔
یہ اصول بہت کسا ہوا ہے اگر اخلاص اور قواعد شرعیہ کی پابندی کے ساتھ اسے استعمال کیا جائے اور یہ بہت ڈھیلا ڈھالا ہے اگر جہالت اور بدنیّتی کے ساتھ کوئی اسے استعمال کرنے پر اتر آئے۔ بلکہ شریعت کا پورا نسخہ ہی ایسا ہے کہ اگر حدودِ شریعت سے آزادی کی خواہش رکھنے والوں کے ہاتھ میں وہ تھما دیا جائے تو وہ دین اور اخلاق کا تیا پانچا کرکے رکھ دیں ۔ وہ بے وضو نماز پڑھا سکتے ہیں ، کیونکہ شریعت نے کسی کو اس کا پابند نہیں کیا ہے کہ مقتدیوں کے سامنے وضو کرکے امامت کرایے۔ وہ ہر روز چار عورتوں سے نکاح کرکے انھیں طلاق دے سکتے ہیں کیونکہ شریعت نے ایک مرد کو چار تک نکاح کرنے اور جب چاہے طلاق دے دینے کی آزادی دی ہے۔ وہ اضطرار کے بہانے سے جب چاہیں حرام چیز کھا اور پی سکتے ہیں کیونکہ مضطر کو تو شریعت نے یہ اجازت دی ہی ہے۔ اس خطرے کا سدّباب کرنے کے لیے اگر کوئی شخص ان دروازوں کو بند کرنا چاہے جو شریعت نے خود ہی بندوں کی مصلحت اور بھلائی کے لیے رکھے ہیں تو اسے پوری شریعت کو بند کرنا پڑے گا کیونکہ یہ شریعت صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو اس کی پابندی کرنا چاہیں ۔ خروج کی نیت رکھنے والوں کے لیے تو اس میں رخنے ہی رخنے ہیں ۔
(ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۵۹ء)