مالِ متروکہ سے زکاۃ کی وصولی

کسی متوفی کے متروکہ سے زکاۃوصول کرنے کا کیا طریقہ ہونا چاہیے؟
جواب

متوفی کے ترکے سے پہلے وہ قرضے ادا کیے جائیں گے جو ا س نے دوسرے لوگوں سے لیے ہوں ،پھر زکاۃ کے بقایا، پھر وصیت، اور اُس کے بعد جو کچھ بچے گا،وہ وارثوں میں تقسیم ہوگا۔صاحب مال کی موت کی وجہ سے اُس کی زکاۃساقط نہیں ہوجاتی۔اُس نے چاہے وصیت کی ہو یا نہ کی ہو،وہ اُس کے مال میں سے نکالی جائے گی۔عطاء،زہری، قتادہ،امام مالکؒ، امام شافعی ؒ، امام محمدؒ، اسحاق بن راہویہ اور ابو ثور کی راے قریب قریب یہی ہے۔بعض فقہا نے یہ راے دی ہے کہ اگر صاحب مال نے زکاۃ کے لیے وصیت کی ہو تو وہ نکالی جائے گی ورنہ نہیں ۔ مگر ہماری راے میں اس کا تعلق صرف اموال باطنہ سے ہے،کیوں کہ اس میں اس امر کا احتمال ہے کہ صاحب مال نے اپنی موت سے پہلے زکاۃنکال دی ہو اور دوسروں کو اس کی خبر نہ ہو۔لیکن جب کہ اموالِ ظاہرہ کی زکاۃ وصول کرنے کا باقاعدہ انتظام حکومت کررہی ہو،تو ایسا کوئی احتمال باقی نہیں رہتا۔اس لیے زکاۃ کے بقایا اُس شخص کے ذمے بمنزلہ قرض ہوں گے۔ پہلے اُس کے مال میں سے افراد کا قرض وصول کیا جائے اور اس کے بعد خدا اور جماعت کا۔ ( ترجمان القرآن،نومبر ۱۹۵۰ء )