مالی عبادات اور بدنی عبادات کے ایصالِ ثواب کا معاملہ

رسائل ومسائل] سوال نمبر۸۰۲ [ میں ’’نذر،نیاز اور فاتحہ کی شرعی حیثیت‘‘ کے عنوان کے تحت جو جواب آپ نے رقم فرمایا ہے، اس سے یہ متبادر ہوتا ہے کہ آپ اس امر کے قائل ہیں کہ مالی عبادت سے ایصال ثواب ہوسکتاہے مگر بدنی عبادت سے نہیں ، اور پھر آپ مالی انفاق کے بھی متوفی عزیز کے لیے نافع ہونے کو اﷲ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف قرا ردے رہے ہیں ۔ کیا آپ کے استدلال کی وجہ یہ ہے کہ اس امر کی بابت کوئی صراحت قرآن وحدیث میں نہیں ہے کہ بدنی عبادت میں ایصال ثواب ممکن ہے؟ یا کوئی اور سبب ہے؟
جواب

دراصل تو قرآن وحدیث سے عام قاعدہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص کا اپنا عمل ہی اس کے لیے مفید ہے،ایک شخص کا عمل دوسرے کے لیے آخرت میں مفید نہ ہوگا۔ لیکن بعض احادیث سے یہ استثنائی صورت بھی معلوم ہوتی ہے کہ ایصال ثواب کیا جاسکتا ہے۔اس طرح کی جتنی احادیث بھی ہمیں ملی ہیں ،ان سب میں کسی خالص بدنی عبادت کا ذکر نہیں ہے بلکہ ایسی عبادت کا ذکر ہے جو یا تو صرف مالی عبادت ہے جیسے صدقہ،یا مالی وبدنی عبادت ملی جلی ہے،جیسے حج۔ اسی بِنا پر فقہا میں اختلاف ہوا ہے۔ ایک گروہ اسے مالی اور بدنی عبادات دونوں میں جار ی کرتا ہے اور دوسرا گروہ اس کو ان عبادات کے لیے مخصوص کرتا ہے جو یا تو خالص مالی عبادات ہیں یا جن میں بدنی عبادت،مالی عبادت کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔میرے نزدیک یہ دوسرا مسلک اس لیے مرجح ہے کہ قاعدۂ کلیہ میں اگر کوئی استثنا کسی حکم سے نکلتا ہو تو اس استثنا کو اسی حد تک محدود رکھنا چاہیے جس حد تک وہ حکم سے نکلتا ہے۔اسے عام کرنا میری راے میں درست نہیں ہے۔لیکن اگر کوئی شخص پہلے گروہ کے مسلک پر عمل کرتا ہے تو اسے ملامت نہیں کی جاسکتی۔کیوں کہ شریعت میں اس کی گنجائش بھی پائی جاتی ہے ۔زیادہ سے زیادہ اختلاف صرف ترجیح کا ہے۔