محکمات اور متشابہات کا مفہوم

قرآن مجید کہتا ہے: ’’وہی ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی۔اس کی کچھ آیات محکم ہیں اور وہی کتاب کی اصل وبنیاد ہیں ۔دوسری متشابہات ہیں ۔سو جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے ،وہ اس کتاب کی ان آیات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں جو متشابہ ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور ان کو معنی پہنائیں ۔‘‘({ FR 2232 })(آل عمران:۷) کیا یہ صحیح ہے کہ آیاتِ محکمات سے مراد وہ آیات ہیں جن کے معنی صاف اور صریح ہیں ؟ اور اس بِنا پر ان کی تأویل وتعبیر کی حاجت نہیں ہے؟اگر یہی بات ہے تو کیا یہ فرض کرلیا جائے گا کہ ان کے معنی سب لوگوں پر واضح ہیں ؟اور کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ سب لوگ ایک ہی طرح سوچتے ہیں اور ایک ہی درجے کا تعقل رکھتے ہیں ؟
جواب

جو آیت آپ نے سورۂ آل عمران سے نقل کی ہے اوراس کے متعلق جو سوالات آپ نے کیے ہیں ،ان کا جواب طلب کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ آپ ’’آیاتِ محکمات‘‘ اور’’آیاتِ متشابہات‘‘ کا مفہوم اور ان کا باہمی فرق اچھی طرح سمجھ لیں ۔ آیات متشابہات سے مراد وہ آیات ہیں جن میں انسانی حواس سے ماورا حقیقتوں کو بیان کیا گیا ہے۔یہ حقیقتیں چوں کہ براہِ راست انسان کے تجربے اور مشاہدے میں نہیں آئی ہیں ،اور اس بِنا پر انسانی زبان میں ان کے لیے ایسے الفاظ موجود نہیں ہیں جو انھی کے لیے وضع کیے گئے ہوں ،اس لیے لامحالہ ان کو بیان کرنے میں وہ الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جو انسان نے دراصل محسوس اشیا کے لیے وضع کیے ہیں ۔مثلاً اﷲ تعالیٰ کے لیے زندگی، بینائی، سماعت،گویائی وغیرہ الفاظ کا استعمال، یا اس کے لیے عرش اور کرسی ثابت کرنا اور یہ کہنا کہ وہ آسمان میں ہے، یا یہ کہنا کہ وہ محبت کرتا ہے، یا غضب ناک ہوتا ہے۔اس طرح کے الفاظ اور اسالیب بیان حقیقت کا ایک مجمل تصور تو دے سکتے ہیں ، اور وہی دینا مقصود بھی ہے، لیکن ان الفاظ اور بیانات کی مدد سے حقیقت کا پورا پورا تفصیلی تصور حاصل کرنا، اور ان ماوراے حواس حقائق کی پوری پوری کیفیت اور نوعیت (nature) معلوم کرلینا بہرحال ممکن نہیں ہے۔
اسی لیے قرآن ان کی تأویل کی کوشش کرنے والوں کو غلط ذہنیت کا شکار قرا ردیتا ہے، کیوں کہ وہ الفاظ اس کے متحمل ہیں ہی نہیں کہ انسان ان کے معانی متعین کرسکے یا ان کی کوئی ایسی تعبیر کرسکے جس سے اصل حقیقت اس کے ادراک کی گرفت میں آجائے۔ اس کے برعکس آیات محکمات وہ آیات ہیں جو انسان اور کائنات سے تعلق رکھنے والے محسوس حقائق، اور تجربہ ومشاہدہ میں آنے والے مسائل و معاملات سے بحث کرتی ہیں ، یا انسان کو وہ احکام اور ہدایات دیتی ہیں جن پر اسے عمل کرنا ہے۔ ان آیات میں چوں کہ وہ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جو زیر بحث اشیا اور امور ہی کے لیے انسانی زبان میں وضع کیے گئے ہیں ، اس لیے انسان ان کی تأویل وتعبیر کرسکتا ہے، ان کے معانی متعین کرنے کی کوشش ممکن بھی ہے او رجائز بھی، بلکہ وہ شریعت میں مطلوب ہے۔ کیوں کہ قرآن کے منشا کو سمجھنے اور اس سے راہ نمائی حاصل کرنے کے لیے اس کی ضرورت ہے۔ البتہ اس کے لیے شرط یہ ہے کہ یہ کوشش نیک نیتی کے ساتھ ہو، راہ نمائی حاصل کرنے کے لیے ہو،اور ان معقول طریقوں کے مطابق ہو جو دنیا میں کسی کلام کا حقیقی مفہوم و مراد معلوم کرنے کے لیے(نہ کہ اس کو اپنی خواہشات اور اپنے نظریات کے مطابق ڈھالنے کے لیے) استعمال کیے جاتے ہیں ۔
اس سوال کا جواب اوپر کی تشریح کے بعد غیر ضروری ہوجاتا ہے۔’’آیاتِ محکمات‘‘ کا یہ مطلب ہے ہی نہیں کہ وہ ایسی آیات ہیں ’’جن کی تعبیر کی کوئی ضرورت نہیں ہے‘‘۔ اس کے برعکس قرآن مجید تو آیاتِ متشابہات کی تأویل سے منع کرکے محکم آیات کی طرف انسان کی توجہ اسی غرض کے لیے پھیرتا ہے کہ غور وفکر اور بحث وتحقیق اور تأویل وتعبیر کی کوششوں کا صحیح رخ یہ آیات ہیں ، نہ کہ آیاتِ متشابہات۔ ( ترجمان القرآن ،اکتوبر ۱۹۵۵ء)