مرزا صاحب کا دعواے نبوت:اس کی سزا میں تاخیر کی وجہ

’’ترجمان القرآن‘‘جنوری،فروری۱۹۵۱ء کے صفحہ ۳۲۶ پر آپ نے لکھا ہے کہ’’میرا تجربہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی جھوٹ کو فروغ نہیں دیتا۔میرا ہمیشہ سے یہ قاعدہ رہا ہے کہ…جن لوگوں کو میں صداقت ودیانت سے بے پروا اور خوف خدا سے خالی پاتا ہوں ،ان کی باتوں کا کبھی جواب نہیں دیتا…خدا ہی ان سے بدلہ لے سکتا ہے …اور ان کا پردہ ان شاء اﷲ دنیا ہی میں فاش ہوگا۔‘‘ میں عرض کردوں کہ میں نے جماعت احمدیہ کے لٹریچر کا مطالعہ کیا ہے اور ان کے کام سے دل چسپی ہے۔میر ے مندرجۂ ذیل استفسارات اسی ضمن میں ہیں : ۱۔ یہ صرف آپ ہی کا تجربہ نہیں ،بلکہ قرآن حکیم میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے:’’اﷲ تعالیٰ کاذبوں سے محبت نہیں کرتا۔‘‘اور’’اﷲ کی لعنت ہے جھوٹوں پر۔‘‘اور پھر اس قسم کے جھوٹوں پر کہ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ (الحاقہ:۴۴ ) ’’اور اگر (نبیؐ) نے خود گڑھ کر کوئی بات ہماری طرف منسوب کی ہوتی‘‘ ان کی سزا تو فوری گرفت اور وصال جہنم ہے لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْيَمِيْنِo ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِيْنَ (الحاقہ:۴۵-۴۶ ) ’’تو ہم اس کا دائیاں ہاتھ پکڑ لیتے اور اس کی رگ گردن کاٹ ڈالتے۔‘‘اس صورت میں اگر مرزا صاحب جھوٹے تھے تو کیا وجہ ہے کہ (ا) ابھی تک اﷲ تعالیٰ نے ان پر کوئی گرفت نہیں کی؟ (ب) ان کی جماعت بڑھ رہی ہے اور مرزا صاحب کے مشن کو، جو مسلمانوں کے نزدیک گمراہ کن ہے،تقویت پہنچ رہی ہے، اور اب تو اس جماعت کی جڑیں بیرون ممالک میں مضبوط ہوگئی ہیں ۔ (ج)مرزا صاحب کے پیغام کو ساٹھ سال ہوگئے ہیں ۔ہم کب تک خدائی فیصلے کا انتظار کریں ؟فی الحال تو وہ ترقی کررہے ہیں ۔ (د) جو جماعتیں یا افراد اس گروہ کی مخالفت کررہے ہیں ،وہ کیوں اسے ترک نہیں کردیتے اور معاملہ خدا پر نہیں چھوڑ دیتے؟ ۲۔صفحہ۲۴۲ پر آپ کی جماعت کے ایک جرمنی نژاد ہم درد نے برلن میں جماعت احمدیہ کے ساتھ تبلیغ اسلام میں تعاون کا ذکر کیا ہے۔اگر آپ بھی ان کی تبلیغ اسلام کو صحیح سمجھتے ہیں تو پاکستان میں ان کے ساتھ تعاون کیوں نہیں کرتے؟
جواب

آپ جس سرسری نظر سے ایک مدعی نبوت کے معاملے کو دیکھ رہے ہیں ،یہ طریقہ ایسے اہم معاملے پر راے قائم کرنے کے لیے موزوں نہیں ہے۔ میں نے جو کچھ لکھا تھا،وہ تو سراسر ایک جھوٹے الزام کے بارے میں تھا جو بعض خود غرض لوگوں نے میرے اوپر لگایا تھا۔ اس بات کو آپ چسپاں کررہے ہیں ایک ایسے شخص کے معاملے پر جس نے فی الواقع نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔آپ کو سمجھنا چاہیے کہ ایک مدعی نبوت کے معاملے میں لامحالہ دو صورتوں میں سے ایک صورت پیش آتی ہے:اگر وہ سچا ہے تو اس کو نہ ماننے والا کافر،اور اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کو ماننے والا کافر۔ ایک ایسے نازک معاملے کا فیصلہ آپ صرف اتنی سی بات پر کرنا چاہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ابھی تک ان پر کوئی گرفت نہیں کی، اور ان کی جماعت بڑھ رہی ہے، اور یہ کہ’’ہم کب تک خدائی فیصلہ کا انتظار کریں ۔‘‘ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص بھی نبوت کا دعویٰ کربیٹھے اور اس کی جماعت ترقی کرتی نظر آئے اور آپ کی تجویز کردہ مدت انتظار کے اندر اس پر خدا کی طرف سے گرفت نہ ہو تو بس یہ باتیں اس کو نبی مان لینے کے لیے کافی ہیں ؟ کیاآپ کے ذہن میں نبوت کو جانچنے کے یہی معیار ہیں ؟
آیت وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ (الحاقۃ:۴۴ ) سے جو استدلال آپ نے کیا ہے،وہ بنیادی طور پر غلط ہے۔ اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ محمدؐ ،جو حقیقت میں اﷲ کے نبی ہیں ،اگر خدا کی وحی کے بغیر کوئی بات خود تصنیف کرکے خدا کے نام سے پیش کردیں تو ان کی رگ گلو کاٹ دی جائے گی۔اس سے یہ معنی نکالنا صحیح نہیں ہے کہ جو شخص حقیقت میں نبی نہ ہو اور غلط طور پر اپنے آپ کو نبی کی حیثیت سے پیش کرے، اس کی رگ گلو بھی کاٹی جائے گی۔
نیز اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے سچے اور جھوٹے نبی کی پہچان کے لیے یہ بات ایک معیار کے طور پر پیش نہیں کی ہے کہ جس مدعی نبوت کی رگ گلو نہ کاٹی جائے وہ سچا نبی ہے، اور جس کی رگ کاٹ دی جائے وہ جھوٹا مدعی۔ قرآن کی آیتوں میں تأویل کی یہ کھینچ تان،جو ظاہر ہے کہ آپ کی اپنی اپج کا نتیجہ نہیں ہے،بلکہ مرزا صاحب کی جماعت سے ہی آپ نے سیکھی ہے،بجاے خود اس بات کی علامت ہے کہ یہ جماعت خوف خدا سے کس قدر خالی ہے۔
محمد ﷺ کے بعد جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے،اس کی بات کو ان معیاروں پر نہیں جانچا جائے گا جو آپ نے پیش کیے ہیں ،بلکہ اسے پورے اطمینان کے ساتھ اس بنیاد پر رد کردیا جائے گا کہ قرآن واحادیث صحیحہ اس معاملے میں قطعی ناطق ہیں کہ آں حضرت ﷺ کے بعد اب کوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔میں ان دلائل سے بھی واقف ہوں جو مرزا صاحب ا ور ان کے متبعین نے باب نبوت کے کھلے ہونے پر قائم کیے ہیں ۔ مگر آپ سے صاف عر ض کرتا ہوں کہ ان دلائل سے اگر کوئی متاثر ہوسکتا ہے تو وہ صرف ایک بے علم یا کم علم آدمی ہی ہوسکتا ہے،ایک صاحب علم آدمی کو تو ان کے دلائل دیکھ کر صرف ان کے جہل ہی کا یقین حاصل ہوتا ہے۔
ترجمان القرآن (جنوری، فروری ۱۹۵۱ء) میں جرمنی کا جو مکتوب شائع ہوا ہے،اس کی اشاعت کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی ہر بات ہمار ے نزدیک سچی ہے۔ ہمارا مدعا تو یہ تھا کہ ہمارے ملک کے مسلمانوں کو اپنے جرمن نو مسلم بھائیوں کی حالت سے آگاہ کیا جائے اور ان کی مدد پر اُکسایا جائے۔ وہ لوگ بے چارے نئے نئے مسلمان ہیں ،ان کو کیا خبر کہ دنیاے اسلام میں کس قسم کے فتنے اُٹھ رہے ہیں ۔ان کو تو اسلام کے نام سے جو چیز جہاں سے بھی ملے گی،وہ اس سے اپنی تشنگی بجھانے کی کوشش کریں گے۔یہ ہمارا کام ہے کہ انھیں اسلام کے متعلق صحیح لٹریچر فراہم کرکے دیں ۔ورنہ اندیشہ ہے کہ وہ بے چارے ناواقفیت میں کسی فتنے کا شکار نہ ہوجائیں ۔ (ترجمان القرآن ,جولائی۱۹۵۱ء)