مزید وضاحت

زندگی کا جنوری کا شمارہ نظر سے گزرا۔ رسائل ومسائل میں آپ نے عورت کی صدارت کےبارے میں جو کچھ لکھا ہے اس کو بغور پڑھا۔ دوباتیں لکھ رہاہوں، زندگی میں توضیح کیجیے۔ پہلی بات یہ ہے کہ دسمبر۱۹۶۴ء کے برہان میں لکھا گیا ہے کہ عورت کی سربراہی کو ناجائز کہنے والے اب کہہ رہے ہیں کہ خاص حالات میں عورت صدرہوسکتی ہے ورنہ اس کی سربراہی جائز نہیں ہے اورآپ نے لکھا ہے کہ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں جماعت اسلامی پاکستان کی مجلس شوریٰ نے مخصوص حالات میں حمایت کا اعلان کیاتھا تو آپ کے پاس برہان کے ’’اب کہہ رہے ہیں ‘‘ کا جواب کیا ہے؟

دوسری بات یہ کہ آپ نے بچے کی حکومت پرقیاس کرکے عورت کی حکومت کا جواز نکالا ہے، لیکن قیاس کرنا مجتہد کاکام ہے اورآپ مجتہد نہیں ہیں۔ اس لیے خاص عورت کے بارے میں فقہ کا کوئی جزئیہ پیش کیجیے۔ امید ہے کہ آپ برانہ مانیں گے۔

جواب

ماہ نامہ برہان کے ’’اب کہہ رہے ہیں ‘‘ کا جواب میں کیا دے سکتا ہوں۔ یہ بات تو آپ کو انھیں سے پوچھنی چاہیے۔ برہان میں فاضل مدیر کا سفرنامہ شائع ہورہاہے۔ اتفاق کی بات یہ ہےکہ دسمبر کے اسی شمارے میں انھوں نےاپنے بارے میں لکھا ہے کہ وہ گھاٹ گھاٹ کاپانی پیے ہوئے اور ہر دساور کا نمک چکھے ہوئے ہیں۔ جن صاحب کی یہ خصوصیت اور یہ صفت ہوان کے لیے اکتوبر کو دسمبر بنادینا کیا مشکل ہے۔ اتنی چھوٹی بات تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔

آپ نے یہ بالکل صحیح لکھا ہے کہ میں مجتہد نہیں ہوں لیکن یہ بات کہ جو مجتہد نہ ہو وہ کوئی شرعی قیاس بھی نہ کرسکے، صحیح نہیں ہے۔ اجتہاد اور قیاس دونوں ایک چیز نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ میں نے جو قیاس کیا ہے وہ اتنا جلی اورواضح ہےکہ نورالانوار پڑھنے والا طالب علم بھی کرسکتا ہے۔ جس علت کی بناپر فقہا نے نابالغ اورغیر مکلف بچے کی حکومت کو جائز قراردیا ہے اس علت کی بناپر بالغ اور مکلف عورت کی سربراہی بدرجہ اولیٰ جائز ہونی چاہیے۔

آپ نے خاص عورت کے بارے میں مجھ سے فقہی جزئیے کا مطالبہ کیا ہے۔ اگرچہ آپ نے اس قیاس میں کسی غلطی کی نشان دہی نہیں کی ہے لیکن اس کے باوجود میں فقہی جزئیہ پیش کررہاہوں تاکہ معلوم ہوجائے کہ عورت کی حکومت کو مخصوص حالات میں جائز کہنے والوں پرتحریف کا جواتہام لگایاجارہاہے اس کی زد کہاں کہاں پڑرہی ہے۔

شریعت اسلامیہ نے عورت کو جودرجہ عطا کیا ہے فقہ حنفی اس کی بہت اچھی تعبیر وتشریح کرتی ہے۔ ائمۂ احناف نے عورت کے قاضی اور حاکم ہونے کے مسئلے سے بھی صرف نظر نہیں کیا ہے۔ وہ اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ عورت کا قاضی (جج) ہونا جائز ہے۔ وہ حدود وقصاص کے علاوہ دوسرے امور ومعاملات میں قاضی ہوسکتی ہے۔

علامہ کاسانی نے اہلیت قضا کی سات شرطیں بیان کی ہیں 

(۱) عقل، یعنی پاگل نہ ہونا (۲) بلوغ، یعنی بالغ ہونا (۳) اسلام یعنی مسلمان ہونا (۴) حریت، یعنی آزاد ہونا (۵) بصر، یعنی اندھانہ ہونا (۶) نطق، یعنی گونگا نہ ہونا (۷) حد قذف سے محفوظ ہونا۔

ان شرائط ہی سے معلوم ہوگیا کہ مرد ہونا منصب قضا کے شرائط میں نہیں ہے۔ لیکن علامہ کاسانی کی صراحت بھی پڑھ لیجیے، وہ لکھتے ہیں 

فلایجوز تقلید المجنون والصبی والکافر والعبد والاعمی والاخرس والمحدود فی القذف، لأن القضا من باب الولایۃ بل ھواعظم الولایات، وھؤلاء لیست لھم اھلیۃ ادنی الولایات وھی الشھادۃ، فلأن لا یکون لھم اھلیۃ أعلاھا أولی، واما الذکورۃ فلیست من شرط جواز التقلید فی الجملۃ، لأن المرأۃ من اھل الشھادات فی الجملۃ، الا أنھا لا تقضی فی الحدود والقصاص، لأنہ لا شھادۃ لھا فی ذلک، وأھلیۃ القضاء تدورمع أھلیۃ الشھادۃ۔                          (بدائع الصنائع ج۷ص۳)

لہٰذا پاگل، بچے،غلام، اندھے،گونگے کو قاضی بنانا جائز نہیں ہے اوراس شخص کو قاضی بناناجائز نہیں جس پر قذف کے جرم میں حد لگ چکی ہو۔ اس لیے کہ قضا حکومت کے باب سے ہے بلکہ اس کا سب سے بڑا شعبہ ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جن میں حکومت وتولیت کے سب سےکم درجہ یعنی گواہی دینے کی اہلیت بھی نہیں ہے تو ان میں حکومت کے سب سے اعلیٰ درجہ یعنی قضا کی اہلیت بدرجہ اولیٰ  نہ ہوگی۔ باقی رہی ذکورۃ یعنی مردہونا توفی الجملہ یہ کسی کو قاضی بنانے کے جواز کی شرط نہیں ہے۔ اس لیے کہ عورت فی الجملہ گواہیاں دینے والوں کے گروہ میں داخل ہے۔ الا یہ کہ عورت حدود وقصاص کےمعاملات کا فیصلہ نہیں کرے گی، اس لیے کہ حدود وقصاص میں اس کی گواہی معتبر نہیں ہے اور قاضی بننے کی اہلیت کا دارومدار گواہ بننے کی اہلیت پرہے۔‘‘

اس عبارت سے دوباتیں واضح ہوئیں۔ ایک یہ کہ منصب قضا حکومت کا سب سے بڑا منصب ہے۔ دوسری یہ کہ مرد ہونا تقلید قضا (یعنی قاضی بنانے) کے جواز کی شرط نہیں ہے۔ اس لیے عورت کو قاضی بنانا جائز ہے۔ متن ہدایہ کی عبارت یہ ہے

ویجوز قضاء المراۃ فی کل شیء الا فی الحدود والقصاص                  (ہدایہ، کتاب ادب القاضی)

’’حدودوقصاص کے سواہر معاملے میں عورت کا قاضی ہونا جائز ہے۔‘‘

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب منصب قضا حکومت کا سب سے بڑا منصب ہے اور یہ منصب عورت کو سپرد کیاجاسکتا ہے تو پھر اس کو حکومت کی سربراہی کا منصب کیوں نہیں دیا جاسکتا؟ جو شخص کسی حکومت کا جج بن سکتا ہے آخر وہ اس حکومت کا صدر کیوں نہیں بن سکتا؟ آپ کہیں گے کہ میں نے پھر قیاس شروع کردیا، اس لیے آخر میں وہ خاص جزئیہ لکھ رہاہوں۔ درج ذیل جزئیہ درحقیقت اس بحث کا نتیجہ ہےجو ابھی عورت کی اہلیت قضا کے بارے میں کی گئی ہے۔ کنزالد قائق کی عبارت یہ ہے

وتقضی المرأۃ فی غیرحدوقود۔

’’عورت حد اور قصاص کے علاوہ دوسرے معاملات میں فیصلہ کرے گی۔‘‘

اس متن کی شرح میں علامہ ابن نجیم نے حدیث لن یفلح قوم ولواامرھم امرأۃ کا بھی ذکر کیا ہے، صاحب فتح القدیر کی رائے بھی پیش کی ہے اور اس کی بنیادپر اپنے ایک فتوے کا بھی ذکر کیا ہے اور آخر میں اپنا جو فتویٰ دیا ہے وہ یہ ہے

واماسلطنتھا فصحیحۃ، وقد ولی مصر امرأۃ تسمی شجرۃ الدر جاریۃ الملک الصالح بن ایوب                                               (بحرالرائق جلد۷ص۵)

’’اوررہی اس کی سلطنت تووہ صحیح ہے اور مصر کی بادشاہ ایک عورت بنائی گئی، جس کا نام شجرۃ الدر تھا اور جو الملک الصالح بن ایوب کی لونڈی تھی۔‘‘

عورت کی سربراہی کے جواز میں یہ ہے علامہ ابن نجیم (متوفی ۹۷۰ھ) کا صریح فتویٰ جس کی تائید میں انھوں نے شجرۃ الدر کی حکومت کا ذکر کیا ہے۔ اب دیکھیے کہ جو لوگ جماعت اسلامی پاکستان اور مولانا مودودی پرصرف اس لیے تحریف دین کا الزام لگارہے ہیں کہ انھوں نے مخصوص حالات میں بطور استثنا عورت کی صدارت کو جائز قراردیا ہے، ان کے اس الزام کی زد کس شان سے فقہ حنفی اور ائمہ احناف پرپڑرہی ہے۔اس لیے کہ صاحب بحرالرائق نے یہاں نہ اضطرار کا ذکر کیا ہے اور نہ استثنا کا۔ جب استثنا کی صورت میں جواز کا قائل نعوذ باللہ محرف دین ہے تو اضطرار واستثنا کے بغیر جواز کافتویٰ دینے والا کیاہوگا؟

اس مسئلے کو ایک اور پہلو سے دیکھیے۔ مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ جمہوری حکومت میں عورت کی صدارت وحکومت کے جواز کا فتویٰ دیں تو وہ برحق۔ مفتی محمد شفیع صاحب جائز کہیں تو کوئی بات نہیں۔ مفتی مہدی حسن صاحب اور مولانا عبدالماجد دریابادی صاحب گنجائش نکالیں تو کوئی حرج نہیں ـــــلیکن مولانا مودودی جائز کہہ دیں تو وہ محرف دین، ہادم شریعت، ابن الوقت اورمعلوم نہیں کیا کیا۔ او رمولانا مودودی پر یہ تمام الزامات دین کی حمایت کے نام پر لگائے جارہے ہیں۔ اگر اس تمام شوروشغب کامحرک جماعت اسلامی پاکستان اور مولانا مودودی سے بغض ونفرت کے بجائے دین کا درد ہوتا تو پھر دلائل دے کر ان تمام لوگوں کی نام بنام تردید کی جاتی جنہوں نے مخصوص حالات میں عورت کی سربراہی کو جائز قراردیا ہے، لیکن جہاں تک مجھے علم ہے مولانا مودودی کے سوا کسی کو ہدف تنقید ونشانۂ ملامت نہیں بنایاگیا۔ ایسے لوگوں نے بھی انصاف نہیں کیا جو بزرگوں کے صحبت یافتہ ہونے پر فخر کے مارے پھولے نہیں سماتے۔ راقم الحروف کا خیال ہے کہ کم سے کم مولانا تھانویؒ کی روح اپنے معتقدوں کی اس زیادتی اور بے انصافی سے ضرور بے زار ہورہی ہوگی اور زیادتی بھی ایسی جس کی زد براہ راست مولانا تھانویؒ پر بھی پڑرہی ہے۔                                                                     (فروری ۱۹۶۵ءج۳۴ش۴)