مسئلہ پوسٹ مارٹم کے لیے ماہرین کی مجلس کا قیام

سابق خط کے جواب سے میری تشفی نہیں ہوئی۔آپ نے لکھا ہے کہ ’’پوسٹ مارٹم کی ضرورت بھی مسلم ہے اور احکام شرعیہ میں شدید ضرورت کے بغیر اس کی گنجائش بھی نظر نہیں آتی۔‘‘مگر مشکل یہ ہے کہ طبی نقطۂ نگاہ سے کم ازکم اس مریض کی لاش کا پوسٹ مارٹم تو ضرور ہونا چاہیے جس کے مرض کی تشخیص نہ ہوسکی ہو یا ہونے کے باوجود علاج بے کار ثابت ہوا ہو۔اسی طرح’’طبی قانونی‘‘ (medico-legal) نقطۂ نظر سے بھی نوعیت جرم کی تشخیص کے لیے پوسٹ مارٹم لازمی ہے۔علاوہ ازیں اناٹومی، فزیالوجی اور آپریٹو سرجری کی تعلیم بھی جسد انسانی کے بغیر ناممکن ہے۔آپ واضح فرمائیں کہ ان صورتوں پر شرعاً شدید ضرورت کا اطلاق ہوسکتا ہے یا نہیں ؟
جواب

پوسٹ مارٹم کے مسئلے میں جیساکہ پہلے بھی عرض کرچکا ہوں ،مجھے خود بڑا خلجان ہے اور کوئی فیصلہ کن بات میرے لیے مشکل ہے۔ اس معاملے کے دو مختلف پہلو ہیں جن کے تقاضے ایک دوسرے سے متصادم ہوتے ہیں ۔
ایک طرف شرعی احکام ہیں جو مرنے والے انسانوں کے جسم کا احترام کرنے اور ان کو عزت کے ساتھ دفن کردینے کی تاکید کرتے ہیں ،اور اگر وہ مسلمان ہوں تو ان کی تجہیز وتکفین کرکے نمازجنازہ پڑھنے کی ہدایت کرتے ہیں ۔ان شرعی احکام کی تائید ان لطیف انسانی حسیات سے بھی ہوتی ہے جو(شاید ڈاکٹروں اور بالکل سائنٹسٹ قسم کے لوگوں کے سوا) سب ہی انسانوں میں موجود ہوتے ہیں ۔کوئی آدمی خوشی سے یہ گوارا نہیں کرسکتا کہ اس کے باپ،بیٹے،بیوی،بہن اور ماں کی لاشیں ڈاکٹروں کے حوالے کی جائیں اور وہ ان کی چیر پھاڑ کریں ۔ یا وہ میڈیکل کالج کے طالب علموں کو دے دی جائیں تاکہ وہ ان کے ایک ایک عضو کا تجزیہ کریں اور پھر ان کی ہڈیاں سکھا کر رکھ لیں ۔ اسی طرح کوئی قوم بھی یہ گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ اس کے لیڈر او رپیشوا مرنے کے بعد پوسٹ مارٹم کے تختۂ مشق بناے جائیں ۔ ابھی حال میں گاندھی جی اور لیاقت علی خاں مرحوم گولی کے شکار ہوئے ہیں ۔’’طبی قانونی‘‘نقطۂ نظر سے ضرور ی تھا کہ ان کا پوسٹ مارٹم کرکے سبب موت کی تشخیص کی جاتی۔مگر اس سے احتراز کیوں کیا گیا؟صرف اس لیے کہ قومی جذبات اپنے محترم لیڈروں کی لاشوں کا چیرنا پھاڑنا برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
دوسری طرف طبی اور قانونی اغراض کے لیے پوسٹ مارٹم کی ضرورت ہے۔طب کے مختلف شعبوں کی تعلیم اور طبی تحقیقات کی ترقی کے لیے اس کی ضرورت کا انکار نہیں کیا جاسکتا، اور ایک حد تک قانون بھی اس کا تقاضا کرتا ہے کہ قتل کے مقدمات میں سبب موت کا تعین کیا جائے۔
اب یہ ایک بڑاپیچیدہ سوال ہے کہ ان دونوں متصادم تقاضوں کے درمیان مصالحت کیسے کی جائے۔اس کا یہ حل تو میرے نزدیک سخت مکروہ ہے کہ امیروں اور غریبوں ، بڑے لوگوں اور چھوٹے لوگوں ،خاندان والوں اور لاوارثوں کی لاشوں کے بارے میں ہمارے پاس دو مختلف معیارِ اخلاق اور دو مختلف طرزِ عمل ہوں ۔اس لیے لامحالہ اس کا کوئی اور ہی حل سوچنا پڑے گا۔ مگر وہ حل کیا ہو،اس باب میں میری قوتِ فیصلہ بالکل عاجز ہے۔یہ چیز کسی ایسی مجلس میں زیر بحث آنی چاہیے جس میں علماے دین بھی شامل ہوں اور شعبۂ طب اور شعبۂ عدالت کے نمائندے بھی۔ ممکن ہے یہ لوگ سر جوڑ کر اس کا کوئی حل نکال لیں ۔ (ترجمان القرآن ، اپریل،مئی۱۹۵۲ء)