مصافحہ اور معانقہ

بعض حضرات بعد نماز عید جب اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے ہاں ملنے جاتے ہیں تو یا تو وہ مصافحہ کرتے ہیں یا بغل گیر ہوتے ہیں ۔ معلوم یہ کرنا تھا کہ عید کے روز بغل گیر ہونا درست ہے؟ کیا حدیث میں یا کسی صحابی کے فعل سے اس کا جواز ثابت ہے؟
جواب

جہاں تک مصافحہ کا تعلق ہے، محض خوشی کے مواقع پر ہی نہیں بلکہ ہمیشہ ہر ملاقات کے موقع پر وہ نہ صرف جائز بلکہ مستحب اور مسنون ہے۔ ابو دائود میں براء بن عازب ؄ کی روایت ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب دو مسلمان آپس میں مل کر مصافحہ کرتے ہیں اور اللّٰہ کی حمد اور اس سے استغفار کرتے ہیں ، اللّٰہ ان کی مغفرت فرما دیتا ہے۔‘‘ ({ FR 2060 }) ترمذی میں ارشادِ مبارک کے الفاظ یہ ہیں : ’’جب دو مسلمان آپس میں ملاقات کے وقت مصافحہ کرتے ہیں اللّٰہ ان کے جدا ہونے سے پہلے ان کی مغفرت فرما دیتا ہے۔‘‘({ FR 2061 }) یعنی ان کا ایک دوسرے سے مصافحہ کرنا چونکہ مسلمان سے مسلمان کی محبت اور باہمی اکرام کا اظہار ہے، اس لیے یہ ان کی مغفرت کا موجب ہوتا ہے۔ ابودائود میں ہے کہ حضرت ابوذرؓ سے پوچھا گیا کہ رسول اللّٰہ ﷺملاقات کے وقت آپ لوگوں سے مصافحہ فرمایا کرتے تھے؟ انھوں نے جواب دیا کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں حضورﷺ سے ملا ہوں اور آپ نے مجھ سے مصافحہ نہ کیا ہو۔({ FR 2062 }) اسی بنا پر مصافحہ کے بارے میں فقہا کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔
مگر معانقہ کے معاملے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض فقہا (جن میں امام ابو یوسفؒ بھی شامل ہیں ) اسے بلاکراہت جائز سمجھتے ہیں ، بعض صرف سفر سے واپسی پر یا ایسے ہی کسی غیر معمولی موقع پر اس کو جائز اور عام حالات میں مکروہ قرار دیتے ہیں اور امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک یہ مطلقاً مکروہ ہے۔ اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ معانقہ کے بارے میں احادیث مختلف ہیں ۔ ترمذی میں حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللّٰہ ﷺ سے پوچھا، یارسول اللّٰہ ہم میں سے کوئی شخص اپنے کسی بھائی سے ملے تو کیا اس کے آگے جھکے؟ آپؐ نے فرمایا نہیں ۔ اس نے پوچھا کیا اس سے معانقہ کرے اور اس کا بوسہ لے؟ فرمایا نہیں ۔ اس نے پوچھا کیا اس کا ہاتھ پکڑ کر مصافحہ کرے؟ آپؐ نے فرمایا، ہاں ۔({ FR 2063 }) ترمذی ہی میں ایک اور روایت ہے جس میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب زید بن خالد بن حارثہ مدینہ پہنچے تو انھوں نے آکر ہمارے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا، رسول اللّٰہ ﷺ جلدی سے اٹھ کر باہر تشریف لے گئے اور انھیں گلے سے لگا کر ان کا منہ چوما۔({ FR 2064 }) ابودائود میں حضرت ابوذرؓ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ حضورﷺ نے مجھے طلب فرمایا تو میں گھر میں موجود نہ تھا۔ بعد میں جب مجھے معلوم ہوا کہ حضورﷺ نے مجھے یاد فرمایا ہے تو میں خدمت مبارک میں پہنچا۔ آپ نے مجھے گلے لگا لیا۔ ({ FR 2065 })
ان روایات کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ عام طور پر صرف مصافحہ پر اکتفا فرمایا کرتے تھے۔ معانقہ آپ کا عام معمول نہ تھا۔ البتہ کبھی کبھی کسی خاص موقع پر آپ نے معانقہ فرما لیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ فعل ناجائز بھی نہیں ہے۔ (ترجمان القرآن، فروری ۱۹۶۶ء)