معاشرتی ضروریات کے مطابق نصوص کی نئی تعبیر

کیاقرآن وحدیث کے الفاظ کو تبدیل کیے بغیر سوسائٹی اور معاشرت کی بدلتی ہوئی ضروریات کے مطابق ان دو ماخذ کے الفاظ کی تعبیر میں تبدیلی، اضافہ یا کمی کی جاسکتی ہے؟مثلاً جیسا کہ مؤلفۃ القلوب کی مثال سے ثابت ہوتا ہے۔ اس قسم کے مسائل آج بھی پیدا ہوسکتے ہیں ،اگرچہ ان کی تعداد کم ہوگی۔ دوسرے الفاظ میں ان احکام ومسائل میں جو نصوص قرآنی یا احادیث لازمی پر مبنی ہیں ،زمانے کی ضروریات اور ان احکام کی علت بدل جانے پر ایسے نئے احکام مستنبط کیے جاسکتے ہیں جو اسلام کی روح کے مطابق ہوں ۔آخر فقہا ہی کا یہ متفق علیہ مسلک ہے کہ ہر حکم کی ایک علت ہے اور فلاح عامہ بہرحال مقدم ہے۔ مثلاً زکاۃ کا حکم قرآن شریف میں مذکور ہے لیکن زکاۃ کی کوئی شرح مذکور نہیں ۔ احادیث میں جو شرح مذکور ہے وہ زمانے کی ضروریات کے مطابق تھی۔ اب ایک سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا زکاۃ کو ملک کے عام ریونیو یا ٹیکس کی حیثیت حاصل ہے(جب کہ حکومت اسلامی ہو؟) اگر ہے تو دوسرا سوال شرح کا ہے کہ آج کے مالیاتی تقاضے قدیم شرح سے پورے نہیں ہوسکتے۔
جواب

اُصولی طور پر تو یہ بات صحیح ہے کہ احکام شرعیہ کے اجرا ونفاذ میں حالات کا لحاظ کرنا ضروری ہے،اور یہ بھی صحیح ہے کہ نصوص کے الفاظ کی تعبیر میں اختلاف کی کافی گنجائش ہے،لیکن بحث اس وقت پید اہوتی ہے جب اجمال کو چھوڑ کر ہم تفصیلات کی طرف آتے ہیں ۔یہاں متعدد تفصیلات ہمارے سامنے ایسی آتی ہیں جن میں تغیر پسند اصحاب کی تجاویز ہم کو حد جواز سے متجاوز نظر آتی ہیں ۔ مثلاًیہی زکاۃ کا معاملہ ہے جسے آپ نے مثال میں پیش کیا ہے۔ہمارے نزدیک زکاۃ کو ملک کے عام ریونیو یا ٹیکس کی حیثیت حاصل نہیں ہے، بلکہ یہ ایک مالی عبادت ہے،اور اس کے لیے شارع نے جو نصاب، شرح اور مصارف مقرر کیے ہیں ،ان میں رد وبدل نہیں کیا جاسکتا۔ اور جن چیزوں پر زکاۃعائد کی گئی ہے،ان میں بھی کمی بیشی ممکن نہیں ہے،اِلاّ یہ کہ کسی چیز کو شارع کی مقرر کردہ اشیا پر قیاس کرلیاجائے۔ رہیں حکومت کی ضروریات، تو ہم اس بات کے قائل ہیں کہ ایک اسلامی حکومت جمہور کی خدمت کے جن جن کاموں کو اپنے ہاتھ میں لے،ان کی انجام دہی کے لیے و ہ جمہور پر ٹیکس لگا کر اپنے مصارف پورے کرسکتی ہے،بشرطیکہ ٹیکس انصاف کے ساتھ لگائے جائیں اور ایمان داری کے ساتھ ان کو خرچ کیا جائے۔
(ترجمان القرآن، دسمبر۱۹۵۰ء)