مقدمات کا کسی دوسری فقہ پر فیصلہ

اگر حنفی اور شافعی نقطۂ نظر کے درمیان اختلاف ہو تو کیا یہ ضروری ہے کہ حنفیوں کے معاملے میں صرف حنفی نقطۂ نظر ہی قبول کیا جائے؟ اور خاص کر جہاں عدالت اس راے پر پہنچے کہ شافعی نقطۂ نظر زیادہ وزن دار ہے؟
جواب

اس سوال کے دو پہلو ہیں ۔ ایک اصولی، دوسرا عملی۔
اصولی حیثیت سے اگر قاضی کسی مسئلے کی تحقیق کرکے اس نتیجے پر پہنچے کہ اس خاص مسئلے میں حنفی مذہب کی بہ نسبت شافعی یا مالکی یا حنبلی مذہب کے دلائل کتاب و سنت کی رو سے زیادہ مضبوط ہیں تو وہ نہ صرف اس کے مطابق فیصلہ کرنے کا مجاز ہے بلکہ راحج مذہب کو چھوڑ کر مرجوح مذہب پر فیصلہ کرنا جائز نہیں ہے۔ لیکن عملی حیثیت سے اس میں چند درچند مشکلات ہیں ۔
اول تو ہمارے ملک میں دوسرے مذاہب کی مبسوط کتابیں نہیں ملتیں جن سے ان کے دلائل پوری طرح معلوم کیے جاسکیں اور ایک مسئلے سے تعلق رکھنے والے تمام وہ جزئیات سامنے آ جائیں جنھیں کسی دوسرے مذہب کے مطابق فیصلہ کرتے ہوئے ملحوظ رکھنا چاہیے۔
دوسری مشکل یہ ہے کہ احادیث اور ان کی شرحوں اور اسماء الرجال کا پورا ذخیرہ کسی عدالت کی لائبریری یا کسی پبلک لائبریری میں موجود نہیں ہے تاکہ ایک مذہب کی فقہی کتابیں جن روایات کے حوالے دیتی ہیں ان کے درست یا نادرست ہونے کا فیصلہ کرنے کے لیے اصل مآخذ سے رجوع کیا جاسکے۔
تیسری مشکل یہ ہے کہ فقہ و حدیث کی تمام کتابیں عربی زبان میں ہیں اور ہمارے ملک کے حکام عدالت اور وکلا، خواہ وہ عربی زبان سے بحیثیت زبان بخوبی واقف بھی ہوں ، انھوں نے اس خاص زبان کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی ہے جو فقہ، اصولِ فقہ، حدیث اور اصولِ حدیث میں استعمال ہوتی ہے۔ ان مضامین کی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے محض عربی زبان کا علم کافی نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں کے لاکالجوں میں اسلامی قانون کی کماحقہ تعلیم کا اب تک کوئی انتظام نہیں کیا گیا ہے۔
آخری مشکل یہ ہے کہ اگر کوئی عدالت عالیہ تحقیق کا حق ادا کرکے حنفی مذہب کے بجاے کسی دوسرے مذہب کے مطابق فیصلہ کر دے تو یہ ماتحت عدالتوں کے لیے ایک اصولی نظیر بن جائے گی اور اجتہادی اہلیت کے بغیر دوسرے مذاہب فقہ کے مطابق فیصلے کرنے کا دروازہ کھل جائے گا۔ ہمارے ملک کی عام آبادی حنفی ہے اور یہاں کے علما اسی مذہب سے واقف ہیں ، بلکہ اس مذہب کی پیروی کے سخت پابند ہیں ، اس لیے نیم پختہ علم کی بنا پر جب چھوٹی عدالتوں سے حنفی فقہ کے خلاف فیصلے صادر ہونے لگیں گے تو اس پر ہنگامہ برپا ہو جائے گا۔
ان تمام باتوں کو نگاہ میں رکھتے ہوئے میں یہ مشورہ دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ اس معاملے میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔
(ترجمان القرآن، جنوری۱۹۷۷ء)