مُسْتَکْبِرِیْنَ بِہٖ سٰمِراً تَہْجُرُوْنَ کا ترجمہ

استکبار کے بعد ’’ب‘‘ اس بات کا قرینہ ہے کہ یہ لفظ یہاں استہزا کے مفہوم پر متضمن ہے۔ عربی میں جب ’’صلہ‘‘ لفظ کے ساتھ مناسبت نہ رکھتا ہو تو مناسب لفظ محذوف ہوتا ہے، جیسے فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ صَبَرَ یَصْبِرُ کے ساتھ ’’ل‘‘ کا صلہ مناسبت نہیں رکھتا، اس لیے پورا جملہ ہوگا فَاصْبِرْ وَانْتَظِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ، خَلَا کے ساتھ الٰی مناسبت نہیں رکھتا، اس لیے تقدیرِ جملہ ہوگی: اِذَا خَلَوا وَذَھَبُوْا اِلٰی شَیاطِیْنِھِمْ۔ لفظ سٰمِراً، تَھْجُرُوْنَ کا مفعول بھی ہوسکتا ہے اور اگر اس کو بِہٖ کی ضمیر مجرور کا حال مانیں جب بھی کوئی قباحت نہیں ہے۔ تَھْجُرُوْنَ (تم چھوڑتے ہو) اپنے معروف معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ’’گھمنڈ کرتے ہوئے گویا کسی افسانہ گو کو چھوڑ رہے ہو۔‘‘
جواب

اس بحث کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ جس سلسلۂ بیان میں یہ فقرہ آیا ہے اسے نگاہ میں رکھا جائے۔ پورا مضمون یہ ہے:
قَدْ كَانَتْ اٰيٰتِيْ تُتْلٰى عَلَيْكُمْ فَكُنْتُمْ عَلٰٓي اَعْقَابِكُمْ تَنْكِصُوْنَo مُسْتَكْبِرِيْنَ۝۰ۤۖ بِہٖ سٰمِرًا تَہْجُرُوْنَ
(المؤمنون:۶۶-۶۷ )
تفہیم القرآن میں ان آیتوں کی ترجمانی اس طرح کی گئی ہے:
’’میری آیات سنائی جاتی تھیں تو تم (رسول کی آواز سنتے ہی) الٹے پائوں بھاگ نکلتے تھے، اپنے گھمنڈ میں اس کو خاطر ہی میں نہ لاتے تھے، اپنی چوپالوں میں اس پر باتیں چھانٹتے اور بکواس کرتے تھے۔‘‘ ({ FR 2100 })
دوسرے اکابر اہل علم کے ترجمے یہ ہیں :
شاہ ولی اللّٰہ صاحبؒ: ’’ہر آئینہ خواندہ می شد آیاتِ مابرشما پس شمابر پاشنہائے خود باز می گشتید تکبر کناں برآں قرآن، بافسانہ مشغول شدہ ترک می کردید۔‘‘
شاہ رفیع الدین صاحبؒ: ’’تحقیق تھیں آیتیں میری کہ پڑھی جاتی تھیں اوپر تمھارے، پس تھے تم اوپر اپنی ایڑیوں کے پھر جاتے تکبر کرتے ہوئے ساتھ اس کے، افسانہ گوئی کرتے ہوئے بے ہودہ بکتے تھے۔‘‘
شاہ عبدالقادر صاحبؒ: ’’تم کو سنائی جاتی تھیں میری آیتیں تو تم ایڑیوں پر الٹے بھاگتے تھے۔ اُس سے بڑائی کرکر ایک کہانی والے کو چھوڑ کرچلے گئے۔‘‘
مولانا اشرف علی صاحب: ’’میری آیتیں تم کو پڑھ پڑھ کر (رسول کی زبانی) سنائی جایا کرتی تھیں تو تم الٹے پائوں بھاگتے تھے، تکبر کرتے ہوئے، قرآن کا مشغلہ بناتے ہوئے (اس قرآن کی شان میں ) بے ہودہ بکتے ہوئے۔‘‘
تفہیم القرآن میں مُسْتَکْبِرِیْنَ بِہٖ کی ضمیر آیات سنانے والے رسول کی طرف پھیری گئی ہے اور اس کے ساتھ استکبار کرنے (یعنی گھمنڈ کرنے) میں عدم اعتنا کو مُقَدَّر مان کراس کا مفہوم ’’خاطر میں نہ لانے‘‘ سے ادا کیا گیا ہے۔سَمر کو عربی محاورے کے مطابق راتوں کی افسانہ گوئی اور گپ بازی کے معنی میں لیا گیا ہے، جو ہر قبیلے کی چوپال میں ہوا کرتی تھی اور تَھْجُرُوْنَ کو ہذیان اور بدگوئی کے معنی میں لیا گیا ہے۔
شاہ ولی اللّٰہ صاحبؒ اور ان کے دونوں صاحب زادوں اور مولانا اشرف علی صاحب نے بِہٖ کی ضمیر قرآن یا اس کے سنانے والے رسول کی طرف پھیری ہے۔ آگے کے مضمون میں شاہ ولی اللّٰہ صاحبؒ، شاہ رفیع الدین صاحبؒ اور مولانا اشرف علی صاحبؒ نے سامراً کا مفہوم بافسانہ مشغول شدن، افسانہ گوئی کرنے اور قرآن کا مشغلہ بنانے سے ادا کیا ہے اور صرف شاہ عبدالقادر صاحبؒ نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ کفارِ قریش رسول اللّٰہ ﷺ کو سامر (کہانی سنانے والا) قرار دیتے تھے۔ تَھْجُرُوْنَ کو شاہ ولی اللّٰہ صاحبؒ اور شاہ عبدالقادر صاحبؒ نے ترک کرنے اور چھوڑ دینے کے معنی میں اور شاہ رفیع الدین صاحبؒ اور مولانا اشرف علی صاحبؒ نے بے ہودہ بکواس کے معنی میں لیا ہے۔
اب دیکھیے کہ اکابر مفسرین ان آیتوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں ۔
ابن جریر کہتے ہیں کہ سَمْر سے مراد رات کے وقت افسانہ گوئی کرنا ہے اور تَھْجُرُونَ کے دو معنی ہوسکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ لوگ قرآن یا رسول اللّٰہ ﷺ سے بے رخی کرتے اور آپ کو چھوڑ دیتے تھے۔ دوسرے یہ کہ وہ ہذیان بکتے تھے۔ اس کے بعد صحابہ و تابعین کے اقوال نقل کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ حضرت عبداللّٰہ بن عباسؓ نے تَھْجُرُوْنَ کا مطلب اللّٰہ کے ذکر اور حق کو چھوڑ دینا بیان کیا ہے۔ حضرت سعید بن جبیر کے نزدیک سَامِراً تَھْجُرُوْنَ کی تفسیر ’’راتوں کی افسانہ گوئی اور خلافِ حق باتوں میں انہماک‘‘ ہے۔ مجاہدؒ کہتے ہیں کہ تَھْجُرُوْنَ سے مراد قرآن کے بارے میں بدگوئی ہے اور ابن زید کے نزدیک یہ لفظ ہذیان کے معنی میں ہے۔
زمخشری مُسْتَکْبِرِیْنَ بِہٖ سَامِراً تَھْجُرُوْنَ کی تفسیر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ:
(۱) بِہٖ کی ضمیر کا مرجع اٰیَاتِیْ بمعنی کِتَابِیْ بھی ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں قرآن سے استکبار کرنے کا مطلب یا تو یہ ہوگا کہ وہ تکبر کرتے ہوئے اس کی تکذیب کرتے ہیں ، یا پھر اس کے معنی یہ ہوں گے کہ قرآن سن کر ان پر غرور اور سرکشی کا دورہ پڑ جاتا ہے اور اس لحاظ سے وہ قرآن کے ساتھ استکبار کے مرتکب ہوتے ہیں ۔
(۲) بِہٖ کا تعلق سَامِراً سے بھی ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ وہ اپنی راتوں کی مجلسوں میں قرآن کا ذکر کرتے ہوئے اس پر طعن و تشنیع کرتے ہیں ۔ کفار قریش کا معمول یہ تھا کہ وہ راتوں کو بیت اللّٰہ کے ارد گرد مجلسیں جما کر بیٹھ جاتے تھے اور اپنا وقت زیادہ تر قرآن کے خلاف باتیں چھانٹنے اور رسول اللّٰہ ﷺ پر سبّ و شتم کرنے میں صرف کرتے تھے۔
(۳) بِہٖ کا تعلق تَھْجُرُوْنَ سے بھی ہوسکتا ہے جو اگر ہُجر سے مشتق ہوتو اس کے معنی فحش گوئی کے ہیں اور ہَجْر سے مشتق ہوتو اس کے معنی ہذیان بکنے کے ہیں ۔
امام رازی اور بیضاوی کی تفسیر زمخشری اور ابن جریر کی تفسیر سے کچھ مختلف نہیں ہے۔
آلوسی کہتے ہیں کہ مُستَکْبِرِیْنَ بِہٖ میں ب یا تو تعدیہ کے لیے ہے تاکہ استکبار میں ضمناً تکذیب کا مفہوم شامل ہو جائے، یا سببیت کے لیے ہے، کیونکہ کفار کے اندر استکبار رسول اللّٰہ ﷺ کی بعثت کے سبب سے ظاہر ہوا تھا اور یہ بھی جائز ہے کہ ضمیر کا مرجع قرآن ہو جس پر لفظ آیات دلالت کرتا ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ اس کا تعلق سامراً سے ہو اور معنی یہ ہوں کہ وہ اپنی راتوں کی گفتگوئوں میں قرآن کے خلاف طعن کرتے تھے۔ آگے چل کر وہ کہتے ہیں کہ تَھْجُرُوْنَ ھَجْر سے مشتق ہے، جس کے معنی چھوڑ دینے اور تعلق توڑ دینے کے ہیں ، اور یہ حال کے طور پر یہاں لایا گیا ہے اس معنی میں کہ وہ حق کو یا قرآن کو، یا نبی ﷺ کو چھوڑتے ہوئے ایسا کرتے ہیں ۔ نیز ہجر کے معنی ہذیان کے بھی ہیں اور اس معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ وہ قرآن یا نبی ﷺ کی شان میں ہذیان بکتے ہیں ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تَھْجُرُوْنَ ہُجر سے ہو جس کے معنی کلامِ قبیح کے ہیں ۔
اس بحث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تفہیم القرآن کی ترجمانی اور دوسرے مترجمین کے ترجموں میں سے کسی پر بھی وہ اعتراض وارد نہیں ہوتا جو معترض نے کیا ہے۔ (ترجمان القرآن، دسمبر ۱۹۷۶ء)