جواب
ہمارے فقہاء کے ہاں اس طرح کی قانونی بحثیں ملتی ہیں کہ امورِ خانہ داری کی انجام دہی عورت کی ذمے داری میں شامل ہے یا نہیں ؟ میرا خیال ہے کہ حدیث میں یہ جو بات کہی گئی ہے کہ مرد جو کھائے وہی اپنی بیوی کو کھلائے اور جو پہنے وہی بیوی کو پہنائے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پکا ہوا کھانا اسے فراہم کرے اور ریڈی میڈ سوٹ اسے پہنائے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمھاری بیوی کا معیار یا اسٹیٹس تم سے فروتر نہیں ہونا چاہیے۔ کم از کم ہندستان اور پاکستان میں تو ایسا نہیں ہوتا کہ عورت کا معیار شوہر کے معیار سے کم ہو، بلکہ مرد عموماً خواتین کو اپنے سے بہتر حالت میں رکھتے ہیں ۔ بعض اوقات مزاجوں کی عدم مناسبت، قوتِ برداشت کی کمی، ناچاقی یا دوسرے اسباب کی بنا پر عورت کے ساتھ نامناسب سلوک ہونے لگتا ہے۔ اس لیے کہا گیا کہ بیوی، جب تک بیوی ہے اس کا حق ہے کہ آدمی کا جو معیار زندگی ہے وہ اس کا بھی معیار ہو۔ یہ نہ ہو کہ اسے اس کی ضروریات کے لیے خرچ نہ دیا جائے یا دیا جائے تو اپنے اور اس کے معیار سے کم ہو۔ آدمی خود تو اپنی ضرورتوں کے لیے موٹر استعمال کرے اور بیوی کے لیے رکشا کی سہولت بھی نہ ہو۔ اپنے لیے کئی ملازم ہوں اور بیوی کے لیے کوئی خادمہ نہ ہو۔ جہاں تک کھانا پکانے یا گھر کے کام کاج کا تعلق ہے زمانۂ رسالت میں بھی خواتین یہ خدمت انجام دیتی تھیں ۔ آج بھی انجام دیتی ہیں ۔ اگر کوئی خاتون اسے اپنی قانونی ذمے داری نہ سمجھے اور اس سے دست کش ہوجائے تو وہ شوہر سے بھی صرف قانونی حقوق ہی کا مطالبہ کرسکتی ہے۔ اسے اس حسنِ سلوک کی توقع نہیں کرنی چاہیے، جس سے وہ زندگی بھر بہرہ ور ہوتی رہتی ہے۔