نکاحِ شِغار

مسلمانوں میں عموماً رواج ہوگیا ہے کہ دو شخص باہم لڑکوں لڑکیوں کی شادی ادل بدل کے اُصول پر کرتے ہیں ۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کئی اشخاص مل کر اس طرح کا ادل بدل کرتے ہیں ۔مثلاًزید بکرکے لڑکے کے ساتھ،بکر عمر کے لڑکے کے ساتھ، اور عمر زید کے لڑکے کے ساتھ اپنی لڑکیوں کا نکاح کردیتے ہیں ۔ان صورتوں میں عموماًمہر کی ایک ہی مقدار ہوتی ہے۔بعض علماے دین اس طریقے کو شغار کہتے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ شِغار کو نبی ﷺنے منع فرمایا ہے({ FR 2078 }) بلکہ حرام قرار دیا ہے۔ بحالات موجودہ ایک غریب آدمی یہ طریقہ اختیار کرنے پر مجبور بھی ہوتا ہے،کیوں کہ جس آسانی سے دوسرے لوگ اُس کی لڑکی کو قبول کرنے پر تیار ہوتے ہیں ، اس آسانی سے اُس کے لڑکے کو رشتہ دینے پر تیار نہیں ہوتے۔براہِ کرم اس مسئلے کی حقیقت واضح فرما ویں ۔
جواب

عام طور پر ادلے بدلے کے نکاح کا جو طریقہ ہمارے ملک میں رائج ہے، وہ دراصل اُسی شِغار کی تعریف میں آتا ہے جس سے نبی ﷺ نے منع فرمایا ہے۔شِغار کی تین صورتیں ہیں اور وہ سب ناجائز ہیں :
ایک یہ کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو اِ س شرط پر اپنی لڑکی دے کہ وہ اس کو بدلے میں اپنی لڑکی دے گا اور ان میں سے ہر ایک لڑکی دوسری لڑکی کا مہر قرارپائے۔
دوسرے یہ کہ شرط تو وہی ادلے بدلے کی ہو مگر دونوں کے برابر برابر مہر (مثلاً۵۰،۵۰ہزار روپیا)مقرر کیے جائیں اور محض فرضی طور پر فریقین میں ان مساوی رقموں کا تبادلہ کرلیا جائے۔ دونوں لڑکیوں کو عملاً ایک پیسا بھی نہ ملے۔
تیسرے یہ کہ ادلے بدلے کا معاملہ فریقین میں صرف زبانی طورپر ہی طے نہ ہو بلکہ ایک لڑکی کے نکاح میں دوسری لڑکی کا نکاح شرط کے طور پر شامل ہو۔
ان تینوں صورتوں میں سے جو صورت بھی اختیار کی جائے گی،شریعت کے خلاف ہوگی۔ پہلی صورت کے ناجائزہونے پر تو تمام فقہا کا اتفاق ہے۔البتہ باقی دو صورتوں کے معاملے میں اختلاف واقع ہوا ہے۔لیکن مجھے دلائل شرعیہ کی بِنا پر یہ اطمینان حاصل ہے کہ یہ تینوں صورتیں شِغارِ ممنوع کی تعریف میں آتی ہیں اور تینوں صورتوں میں اس معاشرتی فساد کے اسباب یکساں طور پر موجود ہیں جن کی وجہ سے شغار کو منع کیا گیا ہے۔ (ترجمان القرآن ، اپریل،مئی۹۵۲اء)