والدین کی اطاعت کے حدود

میں اپنے حالات مختصراً پیش کرتا ہوں ۔مجھے بتلایئے کہ کون سا ایسا طریق ِکار اختیار کروں کہ میرے اسلام میں فرق نہ آئے۔({ FR 2066 }) والدین اُٹھتے بیٹھتے اصرار کررہے ہیں کہ[ نظامِ کفر کی] ملازمت پر واپس چلا جائوں ۔ بحالت موجودہ وہ نہ صرف اپنا بلکہ خدا کا نافرمان بھی گردانتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ صرف ایسے وقت پر والدین کی نافرمانی جائز ہے جب وہ یہ کہیں کہ خدا کو نہ مانو۔باقی تمام اُمور میں والدین کا حکم شرعی طور پر واجب التعمیل ہے۔ عن قریب وہ اعلان کرنے والے ہیں کہ نوکری پر چلاجائوں تو بہتر، ورنہ میرا ان سے کوئی تعلق نہ رہ سکے گا۔بس وہ اتنی رعایت مجھے دیتے ہیں کہ اگر میں مستقل طورپر ملازمت اختیار کرنا نہیں چاہتا تو کم از کم سال ڈیڑھ سال اور اختیار کیے رکھوں ، حتیٰ کہ میرے چھوٹے بھائی بی اے کرلیں اور میری خالی جگہ کو پُرکرسکیں ۔ اس سلسلے میں گناہ وہ اپنے سرلیتے ہیں ۔
جواب

آپ کا عنایت نامہ ملا۔ آپ اب اسی مرحلے پر پہنچ گئے ہیں جس سے میں نے آپ کو یہاں پہلے ہی آگاہ کردیا تھا۔میں اس معاملے میں آپ سے یہ نہیں کہوں گا کہ آپ کیا رویہ اختیار کریں ۔اس کا فیصلہ آپ کو بالکل اپنے قلب وضمیر کی آوازپر کرنا چاہیے اور اپنی ہمت کا جائزہ لے لینا چاہیے ۔بہرحال جو فیصلہ بھی آپ کریں ، ٹھنڈے دل سے کریں اور خدا سے دُعا مانگتے رہیں کہ آپ کوئی ایسا قدم نہ اُٹھائیں جس کے بعدپسپائی کی نوبت آئے۔ پسپا ہونے سے اقدام نہ کرنا زیادہ بہتر ہے۔
فیصلے کو آپ کے اپنے ضمیر پر چھوڑنے کے بعد میں صرف اُن دلائل کا جواب دیے دیتا ہوں جو آپ کے مقابلے میں پیش کیے جاتے ہیں :
عذاب وثواب کوئی کسی کا نہیں اُٹھا سکتا۔ہر شخص اپنے عذاب وثواب کا خود حامل ہے۔ میرے کہنے سے اگر آپ کوئی گناہ کریں تو میں کہنے کا گناہ گار ہوں گا اور آپ کرنے کے گناہ گارہوں گے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ کے کرنے کا گناہ بھی کہنے والے کی طرف منتقل ہوجائے۔ اور آپ اس وجہ سے چھوڑ دیے جائیں کہ آپ نے دوسرے کے کہنے پر گناہ کیا تھا۔
والدین کی فرماں برداری صرف اسی حد تک ہے جس حد تک ان کی فرماں برداری سے خالق کی نافرمانی لازم نہ آتی ہو۔ اگر وہ کسی معصیت کا حکم دیں تو ان کی اطاعت کرنا صرف یہی نہیں کہ فرض نہیں ہے بلکہ الٹا گناہ ہے۔
جس فعل کو آپ خود معصیت سمجھتے ہیں ،اسے ڈیڑھ یا دو سال تک صرف اس لیے کرتے رہنا کہ خاندان کا ایک اور فرد آپ کے بجاے اس معصیت کے لیے تیار ہوجائے، بالکل ایک غلط فعل ہے ۔ اگر آپ اپنے عقیدے میں صادق ہیں تو آپ کی یہ دلی خواہش ہونی چاہیے کہ نہ صرف آپ خود اس سے بچیں بلکہ خدا کا ہر بندہ اس سے محفوظ رہے۔
(ترجمان القرآن،جولائی اگست ۱۹۴۵ء)