وقت کے سیاسی مسائل میں جماعتِ اسلامی کا مسلک

اس وقت مسلمانانِ ہند دو فتنوں میں مبتلا ہیں :اوّل کانگریس کی وطنی تحریک کا فتنہ جو واحد قومیت کے مفروضے اورمغربی ڈیموکریسی کے اصول پر ہندستان کی اجتماعی زندگی کی تشکیل کرنا چاہتی ہے۔دوم مسلم نیشنل ازم کی تحریک جسے لیگ چلا رہی ہے اور جس پر ظاہر میں تو اسلام کا لیبل لگا ہوا ہے مگر باطن میں روحِ اسلامی سراسر مفقود ہے۔’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ کے مطالعے سے یہ بات ہم پر واضح ہو چکی ہے کہ یہ دونوں تحریکیں اسلام کے خلاف ہیں ۔ لیکن حدیث میں آیاہے کہ انسان جب دو بلائوں میں مبتلا ہو تو چھوٹی بلا کو قبول کرلے۔اب کانگریس کی تحریک تو سراسر کفر ہے۔اس کا ساتھ دینا مسلمانوں کی موت کے مرادف ہے۔اس کے مقابلے میں لیگ کی تحریک اگرچہ غیر اسلامی ہے،لیکن اس سے یہ خطرہ تو نہیں کہ دس کروڑ مسلمانانِ ہند کی قومی ہستی ختم ہوجائے۔لہٰذا کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ ہم لیگ سے باہر رہتے ہوئے اس کے ساتھ ہم دردی کریں ؟ اس وقت ہندستان میں انتخابات کی مہم درپیش ہے({ FR 1021 }) اور یہ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں ۔ ایک طرف تمام غیر لیگی عناصر مل کر مسلم لیگ کو پچھاڑنے کی کوشش کررہے ہیں جن میں اگر وہ کام یاب ہوجائیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ کانگریس کی وطنی تحریک مسلمانوں پر زبردستی مسلّط ہوکے رہ جائے گی۔دوسری طرف مسلم لیگ یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ مسلمان ایک مستقل قوم ہیں اور وہ اپنی قومی حکومت قائم کرنے کے خواہش مند ہیں ۔ان دونوں کا فیصلہ راے دہندوں کے ووٹ پر منحصر ہے۔ایسی صورت میں ہم کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟کیا ہم لیگ کے حق میں ووٹ دیں اور دلوائیں ؟یا خاموش بیٹھے رہیں ؟یا خود اپنے نمائندے کھڑے کریں ؟
جواب

آپ کے ذہن پر ملک کے موجودہ سیاسی حالات کا غلبہ ہے۔اس لیے آپ کو صرف دو ہی فتنے نظر آئے جن میں ہندستان کے مسلمان مبتلا ہیں ۔ حالاں کہ اگر آپ ذرا وسیع نگاہ سے دیکھتے تو ان دو فتنوں کے علاوہ آپ کو اور بہت سے اخلاقی،فکری، تمدنی، مذہبی اور سیاسی ومعاشی فتنے نظر آتے جو اس وقت مسلمانوں پر ہجوم کیے ہوئے ہیں ۔دراصل یہ ایک فطری سزا ہے جو اﷲ کی طرف سے ہر اُس قوم کو ملا کرتی ہے جو کتاب اﷲ کی حامل ہونے کے باوجود اس کے اتباع سے منہ موڑتی اور اس کے منشا کے مطابق کام کرنے سے جی چراتی ہے ۔اس سزا سے اگر مسلمان کبھی بچ سکتے ہیں توصرف اس طرح کہ اپنے اس اصلی وبنیادی جرم سے باز آجائیں جس کی پاداش میں ان پر یہ فتنے مسلّط ہوئے ہیں اور اس کام کے لیے کھڑے ہوجائیں جس کی خاطر انھیں کتاب اﷲ دی گئی تھی۔لیکن اگر وہ اس سے منہ موڑتے ہیں تو پھر جو تدبیریں چاہیں کرکے دیکھ لیں ،یقین جانیے کہ کسی ایک فتنے کا بھی سدّ باب نہ ہوگا بلکہ ہر تدبیر چند اور فتنے قائم کردے گی۔
آپ نے جو سوال پیش کیا ہے، اس کے متعلق میں دو باتیں واضح طور پر عرض کیے دیتا ہوں ، تاکہ آپ کو اور آپ کی طرح سوچنے والے اصحاب کو آئندہ اِ س سلسلے میں کوئی اُلجھن پیش نہ آئے۔
جماعت اسلامی کا مقصدِ قیام
اوّل یہ کہ جماعت اسلامی کے مقصدِ قیام کو اچھی طرح سمجھ لیجیے۔یہ جماعت کسی ملک یا قوم کے وقتی مسائل کو سامنے رکھ کر وقتی تدابیر سے ان کو حل کرنے کے لیے نہیں بنی ہے، نہ اس کی بناے قیام یہ قاعدہ ہے کہ پیش آمدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے جس وقت جو اُصول بھی چلتے نظر آئیں ،ان کو اختیار کرلیا جائے۔ اس جماعت کے سامنے تو صرف ایک ہی عالم گیر اور ازلی وابدی مسئلہ ہے جس کی لپیٹ میں ہر ملک اور ہر قوم کے سارے وقتی مسائل آجاتے ہیں ، اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ انسان کی دنیوی فلاح اور اُخروی نجات کس چیز میں ہے؟ پھر اس مسئلے کا ایک ہی حل اس جماعت کے پاس ہے،اور وہ یہ ہے کہ تمام بندگانِ خدا (جن میں ہندستان کے مسلمان بھی شامل ہیں ) صحیح معنوں میں خدا کی بندگی اختیار کریں اور اپنی پوری انفرادی واجتماعی زندگی کو اس کے سارے پہلوئوں سمیت ان اُصولوں کی پیروی میں دے دیں جو خدا کی کتاب اور اس کے رسولﷺ کی سنت میں پائے جاتے ہیں ۔
ہمیں اس مسئلے اور اس کے اِس واحد حل کے سوا دنیا کی کسی دوسری چیز سے قطعاً کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ جو شخص ہمارے ساتھ چلنا چاہتا ہو،اسے لازم ہے کہ ہر طرف سے نظر ہٹا کر پوری جمعیت ِ خاطر کے ساتھ اس شاہ راہ پر قدم جمائے چلتا رہے۔ اور جو شخص اتنی ذہنی وعملی یک سُوئی بہم نہ پہنچا سکے، جس کے ذہن کو اپنے ملک یا اپنی قوم کے وقتی مسائل بار بار اپنی طرف کھینچتے ہوں ،اورجس کے قدم بار بار ڈگمگا کر ان طریقوں کی طرف پھسلتے ہوں جو دنیا میں آج رائج ہیں ، اُن کے لیے زیادہ مناسب یہ ہے کہ پہلے ان ہنگامی تحریکوں میں جاکر اپنا دل بھرلیں ۔
حاکمیت جمہور پر مصالحت اور الیکشن میں حصہ
دوم یہ کہ ووٹ اور الیکشن کے معاملے میں ہماری پوزیشن کوصاف صاف ذہن نشین کرلیجیے۔پیش آمدہ انتخاب یا آئندہ آنے والے اسی طرح کے انتخابات کی اہمیت جو کچھ بھی ہواور ان کا جیسا کچھ بھی اثر ہماری قوم یا ہمارے ملک پر پڑتا ہو،بہرحال ایک بااُصول جماعت ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے یہ ناممکن ہے کہ کسی وقتی مصلحت کی بِنا پر ہم ان اُصولوں کی قربانی گوارا کرلیں جن پر ہم ایمان لائے ہیں ۔موجودہ کافرانہ نظام کے خلاف ہماری لڑائی ہی اس بنیاد پر ہے کہ یہ نظام حاکمیتِ جمہور کے اُصول پر قائم ہوا ہے اور جمہور جس پارلیمنٹ یا اسمبلی کو منتخب کریں ،یہ اس کو قانون بنانے کا غیر مشروط حق دیتا ہے، جس کے لیے کوئی بالا تر سند اس کو تسلیم نہیں ہے۔بخلاف اس کے ہمارے عقیدۂ توحید کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ حاکمیت جمہور کی نہیں بلکہ خدا کی ہو، اور آخری سند خدا کی کتاب کو مانا جائے، اور قانون سازی جو کچھ بھی ہوکتابِ الٰہی کے تحت ہو نہ کہ اس سے بے نیاز۔
یہ ایک اصولی معاملہ ہے جس کا تعلق عین ہمارے ایمان اور ہمارے اساسی عقیدے سے ہے۔اگر ہندستان کے علما اور عامۂ مسلمین اس حقیقت سے ذہول برت رہے ہوں اور وقتی مصلحتیں ان کے لیے مقتضیاتِ ایمانی سے اہم تر بن گئی ہوں ، تو اس کی جواب دہی وہ خود اپنے خدا کے سامنے کریں گے۔ لیکن ہم کسی فائدے کے لالچ اور کسی نقصان کے اندیشے سے اس اصولی مسئلے میں موجودہ نظام کے ساتھ کسی قسم کی مصالحت نہیں کرسکتے۔آپ خود ہی سوچ لیجیے کہ توحید کا یہ عقیدہ رکھتے ہوئے آخر ہم کس طرح انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں ؟ کیا ہمارے لیے یہ جائزہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو ہم کتا ب اﷲ کی سند سے آزاد ہو کر قانون سازی کرنے کو شرک قرار دیں اور دوسری طرف خود اپنے ووٹوں سے ان لوگوں کو منتخب کرنے کی کوشش کریں جو خدا کے اختیارات غصب کرنے کے لیے اسمبلیوں میں جانا چاہتے ہیں ؟اگر ہم اپنے عقیدے میں صادق ہیں تو ہمارے لیے اس معاملے میں صرف ایک ہی راستہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہم اپنا سارا زور اس اُصول کے منوانے میں صرف کردیں کہ حاکمیت صرف خدا کی ہے اور قانون سازی کتاب الٰہی کی سند پر مبنی ہونی چاہیے ۔جب تک یہ اُصول نہ مان لیا جائے، ہم کسی انتخاب اور کسی راے دہی کو حلال نہیں سمجھتے۔ ( ترجمان القرآن، ستمبر، اکتوبر ۱۹۴۵ء)