پردہ اور اپنی پسند کی شادی

اسلامی پردے کی رو سے جہاں ہمیں بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں ،وہاں دو ایسے نقصانات ہیں جن کا کوئی حل نظر نہیں آتا بجز اس کے کہ صبر وشکر کرکے بیٹھ جائیں ۔ اوّل یہ کہ ایک تعلیم یافتہ آدمی جس کاایک خاص ذوق ہے اور جو اپنے دوست منتخب کرنے میں ان سے ایک خاص اخلاق اور ذوق کی توقع رکھتا ہے،فطرتاً اس کا خواہش مند ہوتا ہے کہ شادی کے لیے ساتھی بھی اپنی مرضی سے منتخب کرے۔لیکن اسلامی پردے کے ہوتے ہوئے کسی نوجوان لڑکے یا لڑکی کے لیے اس بات کی گنجائش نہیں رہتی کہ وہ اپنی مرضی سے اپنا ساتھی چنے، بلکہ اس کے لیے وہ قطعاً دوسروں یعنی ماں یا خالہ وغیرہ کے دست نگر ہوتے ہیں ۔ہماری قوم کی تعلیمی حالت ایسی ہے کہ والدین عموماً ان پڑھ اور اولاد تعلیم یافتہ ہوتی ہے، اس لیے والدین سے یہ توقع رکھنا کہ موزوں رشتہ ڈھونڈ لیں گے، ایک عبث توقع ہے۔ اس صورتِ حال سے ایک ایسا شخص جو اپنے مسائل خود حل کرنے اور خود سوچنے کی صلاحیت رکھتاہو، سخت مشکل میں پڑجاتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایک لڑکی جو گھر سے باہر نہ نکلنے کی پابند ہو،وہ کیوں کر ایسی وسعت نظر، فراست اور عقل عام کی مالک ہوسکتی ہے کہ بچوں کی بہترین تربیت کرسکے اور ان کی ذہنی صلاحیتوں کو پوری طرح سے بےدار کردے، اس کو تو دنیا کے معاملات کا صحیح علم ہی نہیں ہوسکتا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ اتنی ہی تعلیم بھی حاصل کرلے جتنی ایک بے پردہ لڑکی نے حاصل کی ہوتی ہے تو بھی اس کی ذہنی سطح کم ہوگی، کیوں کہ اسے اپنے علم کو عملی طور پر پرکھنے کا کوئی موقع ہی حاصل نہیں ۔ امید ہے کہ آپ اس مسئلے پر روشنی ڈال کر ممنون فرمائیں گے۔
جواب

آپ نے اسلامی پردے کی جن خرابیوں کا ذکر کیا ہے،اوّلاً تو وہ ایسی خرابیاں نہیں ہیں کہ اس کی بِنا پر آدمی لاینحل مشکلات میں مبتلا ہوجائے، اور ثانیاً حیات دنیوی میں آخر کون سی ایسی چیز ہے جس میں کوئی نہ کوئی خامی یا کمی نہ پائی جاتی ہو۔لیکن کسی چیز کے مفید یا مضر ہونے کا فیصلہ اس کے صرف ایک یا دو پہلوئوں کو سامنے رکھ کر نہیں کیا جاتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ مجموعی طور پر اس میں مصالح کو غلبہ حاصل ہے یا مفاسد کو۔ یہی اصول پردے کے بارے میں اختیار کیا جائے گا۔ اسلامی پردہ آپ کی راے میں بھی بے شمار فوائد کا حامل ہے۔ لیکن فقط یہ مشکل کہ اس کی پابندی سے آدمی کو شادی کے لیے اپنی مرضی کے مطابق لڑکی منتخب کرنے کی آزادی نہیں مل سکتی، پردے کی افادیت کو کم یا اس کی پابندی کو ترک کرنے کے لیے وجہ جواز نہیں بن سکتی۔ بلکہ اگر ہر لڑکے کو لڑکی کے انتخاب اور ہرلڑکی کو لڑکے کے انتخاب کی کھلی چھٹی دے دی جائے تو اس سے اس قدر قبیح نتائج برآمد ہوں گے کہ ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور پھر خاندانی نظام جو معاشرے کی مضبوطی اور پاکیزگی کا ضامن ہوتا ہے،درہم برہم ہوکر رہ جائے گا، اور ایک موہومہ مشکل کو حل کرتے کرتے بے شمار حقیقی مشکلات کے دروازے کھل جائیں گے۔
آپ کا یہ خیال کہ باپردہ لڑکی وسعت نظر اور فراست سے بے بہرہ ہوتی ہے ،درست نہیں ہے۔ اور اگر اسے بالفرض درست بھی تسلیم کرلیا جائے تو اس میں پردے کا کوئی قصور نہیں ہے۔ ایک لڑکی باپردہ رہ کر بھی علم وفن میں کمال پیدا کرسکتی ہے اور اس کے مقابلے میں پردے سے باہر ہوکر بھی ایک لڑکی علم وعقل اور فراست وبصیرت سے کوری رہ سکتی ہے۔البتہ بے پردہ لڑکی کو یہ فوقیت ضرور ہوگی کہ وہ معلومات کے لحاظ سے چاہے وسیع النظر نہ ہو لیکن تعلقات کے لحاظ سے اس کی نگاہیں ضرور پھیل جائیں گی۔ایسی حالت میں اگر موزوں ترین رفیق حیات کی تلاش میں کامیابی ہو بھی جائے،تب بھی جو نگاہیں وسعت کی عادی ہوچکی ہوں ،انھیں سمیٹ کر ایک مرکز تک محدود رکھنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔ (ترجمان القرآن،جنوری ۱۹۶۱ء)