زندگی کی مصروفیات میں مجھے ادھر ادھر سفر کرنے کی نوبت اکثر آتی رہتی ہے۔ میرا پیشہ وکالت ہے۔میں موٹرکار،ریل گاڑی،بس اور ہوائی جہاز میں فرض نمازیں ادا کرتا رہتاہوں۔ میرے چند دوستوں کو اس پر اعتراض ہے۔ چناں چہ میرے ایک دوست نے مجھے ایک خط لکھا ہے اور انھوں نے چند احادیث اپنے موقف کی تائید میں تحریر کی ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ فرض نمازیں سواری پرادا نہیں کی جاسکتیں۔ انھوں نے اپنی تائید میں یہ بھی لکھا ہے کہ میں نے کسی عالم دین کودوران سفرگاڑی میں چلتے ہوئے فرض نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا ہے اور نہ کسی سے سنا ہے۔جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے سواری پرنماز فرض بھی ادا کی جاسکتی ہے۔آپ اس کے بارے میں اپنی تحقیق سے مطلع کریں۔
جواب
احادیث میں صرف جانور یعنی اونٹ پرنوافل اور وترادا کرنے کی صراحت ملتی ہے۔ آپ کے دوست نےوہی حدیثیں آپ کو لکھی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور پرکبھی کوئی فرض نماز ادا نہیں کی۔ فقہ کی کتابوں میں کشتی پرنماز فرض ادا کرنے کی تفصیلات بکثرت موجود ہیں۔ ائمہ مذاہب اربعہ کے زمانے میں موجودہ دور کی جدید سواریاں موجود نہ تھیں۔ اس لیے فقہ کی قدیم کتابوں میں ان کے بارے میں کوئی جزئیہ نہیں مل سکتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے۔آپ کے دوست نے چلتی ہوئی ریل گاڑی میں کسی عالم کو فرض نماز ادا کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ لیکن میں نے بہت سے علماء کو چلتی ہوئی گاڑی میں فرض نماز اداکرتے ہوئے دیکھاہے۔چلتی ہوئی ریل گاڑی میں نماز کی ایک شکل تویہ ہوتی ہے کہ پوری نماز کھڑے ہوکر رکوع وسجود کے ساتھ اداکی جائے۔ اس کو ناجائز کہنے کی کوئی وجہ ہی نہیں ہے۔ اگر کھڑے ہوکر رکوع وسجود کے ساتھ نماز ادا کرسکتا ہوتواسے بیٹھ کر نماز ادا نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن اگر ایسا نہ ہواور نماز قضا ہورہی ہوتواس کو ریل گاڑی میں بیٹھ کر فرض نماز ادا کرلینی چاہیے۔ کسی نماز کے قضا ہوجانے اور اس کا وقت نکل جانے کا عذر سب سے بڑاعذرہے۔ دوسرے تمام اعذار کا اعتبار اسی وقت کیا جاسکتا ہے جب نماز کے قضا ہوجانے کا اندیشہ ہو۔ ورنہ کوئی عذر،عذر نہیں ہے۔
فقہائے احناف کے نزدیک جانور پربلاعذر فرض نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے اور عذر کے ساتھ جائز ہے۔فقہ کی کتابوں میں ان اعذار کی ایک فہرست دی گئی ہے جن کی بناپر فرض نما ز جانور کی پیٹھ پر ادا کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طورپر ایک عذر یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر جانور سرکش ہواور سواراس سے اترکر کسی کی مدد کے بغیر دوبارہ اس پر سوار نہ ہوسکتا ہواور کوئی مددگار موجود نہ ہوتووہ فرض نماز جانور پر ہی ادا کرسکتا ہے۔ یہ عذر اسی وقت عذربنے گا جب اس وقت کی نماز قضا ہوجانے کا اندیشہ ہو۔ اور وقت کے اندر منزل پرپہنچ کر نماز پڑھی جاسکتی ہوتو وہ عذر،عذر ہی نہیں۔
جانو ر کی پیٹھ پرنماز اشارے سے ادا کی جائے گی۔
وَکَیْفِیَّۃُ الصَّلَوۃِ عَلٰی الدَّابّۃ اَنْ یُّصَلّی بِالْاِیْمَاءِ (فتاویٰ عالم گیری جلد۱)
’’جانورپرنماز اداکرنے کی کیفیت یہ ہےکہ سوار اشارے سے نماز ادا کرے گا۔‘‘
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک پانی پر چلتی ہوئی کشتی میں بلاعذر بیٹھ کر نماز ادا کرنا بھی جائز ہے لیکن امام ابویوسف اور امام محمد کے مسلک میں کشتی میں بلاعذر بیٹھ کر نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر عذر ہوتو بالاتفاق جائز ہے۔ مثال کے طورپر اگر کھڑے ہوکر نماز پڑھنے میں دوران سرکی شکایت پیداہوتی ہوتو بیٹھ کر نماز پڑھی جاسکتی ہے۔
اَجْمَعُوْا عَلٰی اَنَّہٗ لَوْکَانَ بِحَالٍ یَدُوْرُرَاسُہٗ لَوْقَامَ تَجُوْزُ الصَّلوۃُ فِیْھَا قَاعِدًا کَذَا فِی الْخلاصۃ (فتاویٰ عالم گیری ج۱)
’’اس پر اتفاق ہے کہ کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کی صورت میں دوران سرہوتا ہوتو کشتی میں بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز ہے۔‘‘
’الجامع الصغیر‘ جو امام محمد کی تصنیف اور فقہ حنفی کی مستند ترین کتاب ہے۔اس میں لکھا ہے
رَجُلٌ فِی السَّفِیْنَۃِ قَاعِدًا مِنْ غَیْرِعِلَّۃٍ اَجزَاہٗ وَالقِیَامُ اَفْضَل وَقَالَ اَبُوْیُوْسف وَمُحَمَّد رَحِمُھُمَا اللہُ لَایُجْزِیہِ اِلّا مِنْ عُذْرٍ
’’کسی شخص نے کشتی میں بغیر کسی عذر کے بیٹھ کر نماز پڑھی تویہ اس کے لیے کافی ہے اور قیام افضل ہے۔ ابویوسف ومحمد رحمہااللہ نے کہا کہ یہ اس کے لیے کافی نہ ہوگا الا یہ کہ کوئی عذر ہو۔‘‘
کشتی میں اگر قبلہ روہوکر نماز پڑھی جاسکتی ہوتو استقبال قبلہ ضروری ہے۔ لیکن اگر استقبال قبلہ سے عاجز ہوتو جدھر رخ کرکے نماز پڑھنے پرقادر ہوادھرہی رخ کرکے نماز ادا کرے گا۔
وَاِنْ عَجِزَ عَن اسْتِقْبَالِھَا صَلّی اِلٰی جِھْۃ قُدْرَتِہٖ (الفقہ علی المذاہب الاربعہ)
’’اگر وہ استقبال قبلہ سے عاجز ہوتو جس سمت پرقدرت ہوادھرہی رخ کرکے نماز پڑھے گا۔‘‘
اسی طرح اگررکوع وسجود پرقدرت ہوتو اس کے بغیر نماز جائز نہ ہوگی۔ اشارے سے نماز اس وقت جائز ہوگی جب رکوع وسجود پرقدرت نہ ہو۔
وَلَوْصَلّی فِیْھَا بِالْاِیْمَاءِ وَھُوَ قَادِرٌعَلٰی الرُکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ وَلَا یُجْزِیہِ فِی قَوْلِھِمْ جَمِیْعًا (فتاویٰ عالم گیری،ج۱)
’’اگر رکوع وسجود پرقدرت کے باوجود کسی نے کشتی میں اشارے سے نماز پڑھی تو بالاتفاق یہ اس کے لیے کافی نہ ہوگا۔‘‘
لیکن اگر وہ سجدہ کرنے سے عاجز ہو تو سجدہ ساقط ہوجائے گا۔
وَیَسْقُطُ عَنْہٗ السُّجُوْدُاَیْضًااِذَا عَجِزَعَنْہٗ (الفقہ علی المذاہب الاربعہ)
’’اور سجدہ کرنا بھی ساقط ہوجائے گا اگر وہ اس سے عاجزہو۔‘‘
فقہ کے یہی وہ مسائل ہیں جن پرقیاس کرکے موجودہ دور کی جدید سواریوں پرفرض نماز کے مسائل مستنبط کیےگئے ہیں۔ جب چلتی ہوئی کشتی پرمختلف حالتوں میں کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر یا اشارے سے فرض نماز ادا کرنا جائز ہے تو چلتی ہوئی ریل گاڑی پربدرجۂ اولیٰ جائز ہونا چاہیے۔ کیوں کہ کشتی پانی پر چلتی ہے اورر یل زمین پر۔ موجودہ دور کے فقہا نے اسی قیاس پر ہوائی جہاز میں فرض نماز ادا کرنے کو بھی جائز قراردیاہے۔
ومثل السفنیۃ القطر البخاریۃ والبریۃ والطائرات الجویۃ
(الفقہ علی المذاہب الاربعہ)
’’کشتی ہی کے مثل ریل گاڑیاں، ہوائی جہاز اور اس طرح کی دوسری سواریاں ہیں۔ ‘‘
اس تفصیل سے درج ذیل مسائل مستنبط ہوتے ہیں
۱-چلتی ہوئی ریل گاڑی میں اگر کھڑے ہوکر نماز ادا کرنے کی گنجائش نہ ہو اور نماز کے قضا ہوجانے کا اندیشہ ہوتو بیٹھ کر نماز ادا کی جاسکتی ہے۔
۲- اگر بیٹھ کر باقاعدہ رکوع وسجود کے ساتھ نماز ادا کرنے کی گنجائش بھی نہ ہو اور نماز کا وقت ختم ہوجانے کا اندیشہ ہوتو اشارے سے بھی فرض نماز ادا کی جاسکتی ہے۔
۳- قبلہ رو ہوکر نماز ادا کرنے سے آدمی عاجز ہویعنی استقبال قبلہ کی کوئی صورت نہ ہوتو جدھر رخ کرکے نماز پڑھی جاسکتی ہو ادھر ہی رخ کرکے نماز ادا کی جاسکتی ہے۔
۴- یہی حکم موٹر کار، بس اور ہوائی جہاز کا بھی ہے۔
اشارے کے ساتھ نماز ادا کرنے کی صورت وکیفیت یہ ہے کہ بیٹھ کر ہر رکعت میں وہ سب کچھ پڑھنا ہے جو نماز میں پڑھاجاتاہے۔ اور پھر دونوں طرف سلام پھیرنا ہے البتہ رکوع میں کچھ جھک جانا چاہیے اور سجدے میں اپنی پیشانی کسی چیز پررکھے بغیر، رکوع کے مقابلے میں کچھ زیادہ جھک جائے۔
(دسمبر۱۹۸۰ء، ج۶۵،ش۶)