چندزراعتی مسائل

سوال  زراعت سے متعلق چند مسائل پیش خدمت ہیں۔ امید کرتاہوں کہ آپ ان کے جوابات عنایت کریں گے۔

۱- ایک شخص قرض لے کر اپنی زمین قرض دینے والے کے پاس رہن رکھ دیتا ہے، تاوقت یہ کہ راہن مرتہن کو قرض کی رقم واپس نہ کردے۔ اس وقت تک کے لیے قرض لینے والا اپنا حق کاشت اس کو دےدیتا ہے۔ قرض دینے والا زمین کی پیداوار سے فائدہ حاصل کرتارہتا ہے۔ سرکاری لگان اور سینچائی وغیرہ کے اخراجات مرتہن ہی برداشت کرتا ہے۔ اس صورت میں کیا مرتہن کافائدہ حاصل کرنا جائز ہے؟

۲- ایک کاشت کار زمین دارسے نصف حصہ کاشت پرزمین حاصل کرتا ہے لیکن خود کاشت نہیں کرتا بلکہ دوسرے کاشت کار کو چوتھائی حصے پر دے دیتا ہے۔ پیداوار میں نصف حصہ مالک کا اور نصف میں یہ دونوں شریک ہوتے ہیں۔ تمام اخراجات دوسرا کاشت کاربرداشت کرتاہے صرف بیچ میں پہلا کاشت کار جزوی شرکت کرتا ہے۔ معاملے کی اس صورت کا حکم کیا ہے؟

۳- ایک شخص اپنی زمین،نصف حصہ کاشت پرکاشت کار کو بایں شرط دیتا ہے کہ وہ اس کو اتنی رقم بطورقرض دے اور جب تک قرض واپس نہ ہو وہ زمین کی کاشت کرتا رہے۔ کاشت کے اخراجات،کاشت کار ہی برداشت کرتا ہے۔ وہ ہرسال مالک زمین کو نصف پیداواردے دیتا ہے۔ اس معاملے میں کیا قباحت ہے؟

۴- ایک شخص اپنی زمین کسی کو اس شرط پردیتا ہے کہ کاشت کار کا کوئی بچہ ہویا بڑا آدمی اس کےیہاں کھیتی باڑی اورمویشی کی دیکھ بھال کاکام سال بھر تک مفت کرتا رہے گا اور سال بھر میں قرض واپس نہ ہوسکے تو جب تک قرض کی رقم واپس نہ ہووہ اس کے یہاں مفت کام کرتا رہے گا۔ کیا اس شکل میں مفت کام کرانے پرسود کی تعریف صادق آتی ہے؟

۵-ایک زمین دار اپنی کھیتی باڑی کے لیے ایک نوکر اس شرط پررکھتا ہے کہ اگر تم سال بھر کے لیے پانچ سو روپے بطور قرض ہم سے لیتے ہو تو ہم خدمت کی مزدوری چارسو روپے دیں گے اور اگر قرض نہیں لیتے ہوتو مزدوری پانچ سوروپے دیں گے۔ چوں کہ اس شخص کو روپیوں کی ضرورت ہے اس لیے وہ ایک سوکم معاوضہ پرخدمت قبول کرلیتا ہے۔ اس بارےمیں کیا حکم ہے؟

۶-(الف) ایک زمین دار غلے کے دام دوطرح کے رکھتا ہے۔ مثلا اگرکوئی نقد لے تو پچیس روپیہ من اور ادھار لے تو تیس روپے من۔ کیا اس طرح کی بیع جائز ہے۔

(ب) اس شرط پرغلہ دینا کہ میں اس وقت تمہیں ایک من باجرہ دیتاہوں اور بیساکھ میں تم سے من بھر گیہوں لوں گا۔ یعنی ایک جنس کے بدلے دوسری جنس کا غلہ، تو کیا جائز ہوگا؟

(ج) اس طرح دینا کہ جس قدر چاہوغلہ لے لو۔صرف غلہ کی مقدار طے ہوتی ہے، قیمت طے نہیں ہوتی۔ صرف یہ طے ہوتا ہے کہ فلاں مہینے میں غلے کا جوبھائو ہوگا اسی حساب سے قیمت وصول کی جائے گی۔ کیا اس طرح سودا کرنا ٹھیک ہے؟

۷-(الف) ہندوستان اور خصوصاً راجستھان میں عشری زمین ہے یا نہیں ؟ حکومت جب لگان لیتی ہے تو کیا پھر بھی عشردینا ہوگا؟

(ب) ایک زمین دار جس کی آمدنی کا ذریعہ صرف کھیتی باڑی ہے، جو سرمایہ بھی آتا ہے کھیت ہی سے آتا ہے اب کیا وہ عشر بھی نکالے گا اور سال گزرنے کے بعد زکوٰۃ بھی دے گا؟ وضاحت فرمائیں۔

۸- سود جس طرح ہرشعبۂ زندگی میں جاری وساری ہے وہ آپ کو معلوم ہے۔ بلاسود قرض ملتا نہیں۔ کھیتوں سے فصل حاصل کرنے کے لیے سرمایے کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ کاشت کار کے پاس ہے نہیں، اب وہ کیا کرے؟یہ بھی بتائیے کہ سود لینے اور دینے میں فرق ہے یا نہیں ؟ احادیث میں تو دونوں کو شاید یکساں قراردیاگیاہے۔ یہ سود لینے والے مسلمان کہتے ہیں کہ جب سود دینا بھی اسی درجہ کا گناہ ہے تو پھر ہم سود دینے والے ہی کیوں رہیں، خود سود کیوں نہ لیں۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب تم سود دیتے ہو تو ہم سود لیتے ہیں۔

۹- میرے قبضے میں پانچ بیگھ زمین ہے۔ میں صرف سرکار کو ۱۵روپے سالانہ لگان دیتاہوں، اب اگر میں اپنی زمین کسی دوسرے کاشت کارکو اس سے زیادہ لگان پردوں توجائز ہے یا نہیں ؟

جواب

پہلے چند اصولی باتیں ذہن نشین کرلیجیے تواس طرح کے مسائل کے جوابات سمجھنے میں سہولت ہوگی۔ ایک بات تو یہ کہ قرض دے کر اس سے کسی بھی نوعیت کانفع حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔ یہاں تک کہ مقروض کی دعوت قبول کرنا بھی پسندیدہ نہیں ہے۔ الا یہ کہ دائن اورمدیون کے درمیان اس طرح کے تعلقات پہلے سے قائم ہوں۔ دوسری بات یہ کہ دوطرح کے معاملات کو ایک معاملے میں داخل کرنا صحیح نہیں ہے۔ تیسری بات یہ کہ کسی معاملے میں ایسی شرط لگانا جو اس معاملے سے مناسبت نہ رکھتی ہو، غلط ہے۔ چوتھی بات یہ کہ کوئی ایسی فروخت جائز نہیں ہے جس میں مبیع یا ثمن معلوم نہ ہو۔ مبیع وہ چیز ہےجو فروخت کی جارہی ہو اور ثمن اس کے دام کوکہتے ہیں۔ پانچویں بات یہ کہ زراعت یعنی بٹائی پرکھیت دینا لینا دراصل زمین کا اجارہ ہوتاہے۔اب آپ سوالات کے نمبروار مختصر جوابات ملاحظہ فرمائیے۔
۱- یہ صورت ناجائز ہے۔اس لیے کہ یہ صریح طورپر سود خواری ہے۔ مرتہن جو پیداوار کھائے گا وہ خالص سود ہوگا۔ سرکاری لگان اور سینچائی وغیرہ اخراجات کامرتہن ذمہ دار نہیں ہوتا بلکہ راہن یعنی مالک زمین ہوتا ہے۔ اب اگر مرتہن لگان وغیرہ ادا کررہاہے تواس کی دوصورتیں ہیں  اگرمالک کی اجازت کےبغیر ایسا کررہاہے تو یہ اس کا اس پر احسان ہے اور اگر اجازت سے کررہاہے تو اس کو حق ہے کہ وہ لگان اوردیگر اخراجات کی رقم راہن سے وصول کرے۔ لیکن اس کی وجہ سے وہ پیداوار کامالک نہیں ہوسکتا اور نہ اس کا استعمال اس کے لیے جائز ہے۔ راہن کی اجازت سود کو حلال نہیں کرسکتی۔ مرہونہ زمین (جو زمین رہن رکھی گئی ہے) سے فائدہ اٹھانے کی صرف ایک صورت جائز ہے اور وہ یہ کہ پیداوار کی قیمت لگاکر اتنی رقم اپنے قرض سے وضع کردے اور جیسے ہی قرض کی پوری رقم وصول ہوجائے زمین اس کے مالک کو واپس کردے۔
۲- یہ صورت جائز نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ اجارے پرکھیت دینے کے معاملہ میں قرض لینے کی ایک ایسی شرط لگارہاہے جس کا اس معاملے سے تعلق نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس طرح وہ قرض لے کر اپنی زمین کاشت کار کو بطوررہن دے رہاہے۔ اس معاملہ کی صورت یہ بنتی ہے کہ بیک وقت وہ اجارہ بھی ہے اور رہن بھی اور ان دونوں کو ایک معاملے میں جمع کرنا صحیح نہیں ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ وہ زمین رہن بھی ہوگی تو اس سے قرض دینے والے کے لیے فائدہ حاصل کرنا جائز نہیں رہے گا۔
۴- اس معاملے کے سودی ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ سود صرف یہ نہیں ہے کہ قرض پربطور نفع کسی سے روپیہ یا اناج حاصل کیا جائے بلکہ کسی کی قابل اجرت محنت وخدمت بھی سود ہوسکتی ہے۔ بچہ یا بڑا جو آدمی بھی اس کے یہاں سال بھر یا اس سے زیادہ مفت کام کرے گا اس کے کام کی اجرت، قرض دینے والے کے لیے خالص سود ہوگی۔ ظلم وزیادتی کی یہی روح ہے جس سے بے گار اورغلامی جنم لیتی ہے۔
۵- اس معاملے کے سودی ہونے میں بھی شبہ نہیں ہے۔ قرض دینے کی صورت میں وہ اس کی اجرت کے سوروپے جو ہضم کرے گا وہ سود ہی ہوگا۔ اس کے علاوہ وہ اجارے کے معاملے میں ایک ایسی شرط لگارہاہے جس کا اس معاملے سے تعلق نہیں ہے۔ اس ناجائز شر ط کی وجہ سے بھی یہ معاملہ غلط ہے۔
۶-(الف) یہ بیع جائز ہے دونوں صورتوں میں قیمت معلوم ہے۔ اب اگر کوئی شخص اپنی سہولت کے لیے ادھارقیمت پسند کرتاہے تو اس کو اس کا اختیارہے اور نقد قیمت پسند کرتاہے تو اس کا بھی اسے اختیارہے۔ ان دونوں صورتوں میں کوئی صورت طے کرکے خریدوفروخت ہوتو یہ جائز ہے۔ البتہ اگر کوئی صورت طے نہ ہو اور خریدوفروخت ہوجائے تو یہ جائز نہیں ہے۔
(ب) یہ صورت جائز نہیں ہے۔ دونوں جنس کے غلوں کو کمی وزیادتی کے ساتھ نقد فروخت کرنا جائز ہے لیکن ادھار کی صورت میں ناجائز ہے۔
(ج) یہ صورت بھی ناجائز ہے اس لیے کہ قیمت مجہول ہے اور جس بیع میں قیمت معلوم نہ ہووہ ناجائز ہوتی ہے۔
۷- ہندوستان میں عشری زمین ہے یا نہیں ؟ اس کا مفصل جواب ماہ نامہ ’زندگی‘ جولائی ۱۹۶۸ء کے شمارے میں شائع ہوچکا ہے، آپ اس کو پڑھ لیں اس میں حکومت کے ٹیکس کا حکم بھی بیان کیاگیا ہے۔ مختصراً جواب یہ ہے کہ ہندوستان میں عشری زمینیں یقیناً ہیں۔ نیز یہ کہ حکومت کو ٹیکس ادا کرنے کی وجہ سے عشر ساقط نہیں ہوتا۔
۸- سود لینے اوردینے میں قباحت کے لحاظ سے ضرور فرق ہے۔ سود خوار، سود لینے والا ہی ہوتا ہے، سود دینے والا نہیں ہوتا۔ احادیث میں سود دینے کی ممانعت سودی کاروبار کو ختم کرنے کے لیے کی گئی ہے کیوں کہ سود دینے والا اس کاروبار کے لیے ذریعہ بنتا ہے۔ سودلینا جرم ہے۔ اور سود دینا ذریعہ جرم ہے اس کے علاوہ انسان سود لینے کے لیے مجبورنہیں ہوتا بلکہ حرام طریقے سے اپنے مال میں اضافہ کرنے کے لیے سود لیتا ہے۔ جب کہ سود دینے والا بسا اوقات سودی قرض لینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ مجبوری کی حالت میں سود پر روپیہ لیا جاسکتا ہے لیکن مسلمان کو یہ فیصلہ آخرت کے عذاب کو سامنے رکھ کر کرنا چاہیے کہ وہ سودی قرض لینے کے لیےواقعی مجبور ہے یا نہیں۔
۹- آپ ایسا کرسکتے ہیں۔ اس لیے کہ اجارے پرلی ہوئی زمین کسی دوسرے کو اجارے پردی جاسکتی ہے۔ جو زمین دار اپنے کھیتوں ہی سے سرمایہ حاصل کرتا ہے اس کی دو صورتیں ہیں  ایک یہ کہ وہ تمام غلے گھر منگوالیتا ہے۔ اس صورت میں جس غلے پر وہ عشرادا کرچکا ہے اس پر اس کو دوبارہ عشرادا کرنا نہیں ہوگا۔ یوں سمجھیے کہ جس غلے پر عشر ادا کیاجاچکا ہے اگر وہ گھر میں کئی سال بھی پڑا رہے تو اس پر دوبارہ عشر ادا کرنا نہیں ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ عشرادا کرنے کی بعد وہ غلہ فروخت کرکے اس کو روپے یا چاندی یا سونے میں تبدیل کرلیتا ہے۔ اس صورت میں اگر روپے یا چاندی سونا ایک نصاب یا اس سےز یادہ ہوتو سال گزرنے کےبعدا س کی زکوٰۃ نکالنی ہوگی۔ اس کو مثال کے طورپر یوں سمجھیے کہ کسی کے کھیت میں بیس من گیہوں پیداہوا۔ اس نے دومن عشر نکال دیااور اٹھارہ من گیہوں کو ایک ہزار روپے میں فروخت کردیا۔اس ہزار روپے پرایک سال گزرگیا تو اس کو اس کی زکوٰۃ نکالنی ہوگی اس لیے کہ پیداوار کی زکوٰۃ کاحکم کچھ اور ہے اور روپے یا چاندی سونے کی زکوٰۃ کا حکم کچھ اور۔ دونوں کی زکوٰۃ میں فرق ہے۔ ذریعہ آمدنی زراعت ہویا تجارت یا ملازمت نصاب کے برابر اگر روپے بچ رہے ہوں تو سال گزرنے کے بعد اس کی زکوٰۃ نکالنی ہوگی۔ کسی بھی حلال ذریعہ سے روپے ملاہو زکوٰۃ میں اس روپے کو دیکھا جائے گا اس کے ذریعہ کو نہیں۔

(اکتوبر۱۹۶۸ء،ج۴۱،ش۴)