چور بازار سے مال خرید کرزیادہ قیمت پر بیچنا

آج کل کنٹرول کا زمانہ ہے، مگر کوئی مال دکان دار کو کنٹرول نرخ پر دستیاب نہیں ہوتا۔ وہ چور بازار (black market) سے مال خرید کر گاہکوں کو سپلائی کرتا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ ایسے مال کو کنٹرول ریٹ پر بیچنے میں اسے خسارہ ہوتا ہے۔لامحالہ وہ زیادہ نرخ لگاتا ہے، مگر بعض لوگ اس خرید وفروخت کو بے ایمانی اور فریب قرار دیتے ہیں اورپولیس بھی اس پر گرفت کرتی ہے۔ اس باب میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب

اخلاقی حیثیت سے حکومت کو تسعیر(نرخ بندی)(price control) کرنے کا اس وقت تک کوئی حق نہیں ہے جب تک کہ وہ اپنی مقرر کردہ قیمتوں پر لوگوں کو مال دلوانے کا انتظام نہ کرے۔اس چیز کا انتظام کیے بغیر محض اشیا کے نرخ مقرر کردینے کے معنی یہ ہیں کہ جن لوگوں کے پاس اشیا کے ذخائز ہوں وہ ان کو چھپا دیں اورپھر یاتو ان کا بیچنا بند کردیں یا قانون کی گرفت سے بچتے ہوئے خفیہ طور پر زائد قیمتوں پر بیچیں ۔ جو حکومت اس نتیجے سے محض عقلاً ہی واقف نہیں ہے بلکہ تجربے اور مشاہدے کی رو سے بھی واقف ہوچکی ہے ،وہ اگر اس پر بھی نرخ مقرر کرنے کا طریقہ اختیار کرتی ہے تو اسے اخلاقاً یہ مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے کہ عام خریدار اور بیوپاری اس کے مقرر کردہ نرخوں کی پابندی کریں ۔
اس وقت یہ صریح طور پر نظر آرہا ہے کہ عام خریدار اور چھوٹے چھوٹے خردہ فروش تاجر اگر بڑے صاحبِ ذخیرہ تاجروں سے حکومت کے مقرر کردہ نرخوں پر کوئی چیز لینا چاہتے ہیں تو انھیں کچھ نہیں ملتا،اور اگر وہ ان سے چور بازارکی قیمتوں پر مال خریدتے ہیں تو پھر ان کے لیے یہ کسی طرح ممکن نہیں رہتا کہ اسی مال کو آگے کھلے بازار میں حکومت کے مقرر کردہ نرخوں پر فروخت کرسکیں ۔ ایسی حالت میں جو شخص اپنی روزی کمانے یا اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے چور بازار سے مال خریدتا ہے وہ ہرگز کسی اخلاقی جرم کا ارتکاب نہیں کرتا، اور اگر وہ آگے اس طرح کے مال کو سرکاری نرخ سے زیادہ قیمتوں پر فروخت کرتا ہے،تب بھی وہ کسی قاعدے سے اخلاقی مجرم نہیں ہے۔ایسے شخص کو گرفتار کرکے اگر اسے سزا دی جائے گی تویہ حکومت کا مزید ایک ظلم ہوگا۔
جماعت اسلامی کے ارکان میں سے جو لوگ تاجر ہیں ،انھیں ایسی صورت پیش آئے تو ان کو چاہیے کہ کچہری میں وکیل کے بغیر حاضر ہوں ،معاملے کی اس صورت کو صاف صاف مجسٹریٹ کے سامنے رکھ دیں ، اور پھر بلا تأمل اس سے کہیں کہ اگر اس صورت حال میں بھی آپ کی حسِ انصاف ہمیں مجرم سمجھتی ہے تو ضرور سزا دیجیے، ہم آپ کی ان عدالتوں سے بالا تر ایک عدالت سے توقع رکھتے ہیں کہ آخر کار وہ ہمارا اور آپ کا انصاف ضرور کرے گی۔