چُھوٹے ہوئے فرائض شرعیہ کی قضا

ایک مولانا نے ایک جگہ لکھا ہے: ’’قضا نمازیں جلد سے جلد ادا کرنا لازم ہیں ... جب تک فرض ذمہ پر باقی رہتا ہے کوئی نفل قبول نہیں کیا جاتا۔‘‘ اس اصول کی عقلی حیثیت کسی دلیل کی محتاج نہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ شریعت ہمارے کسی عقلی اصول کو تسلیم کرکے اس پر اپنے مسائل کی بنیاد رکھے۔ ادھر ہم مسلمانوں کی غالب اکثریت کا یہ حال ہے کہ ہر شخص پر ایک زمانہ تھوڑا یا بہت جاہلیت کا گزر چکا ہے جس میں نہ نماز کا خیال نہ روزے کی پروا، اس لیے قضا نمازوں کے لازم فی الذمہ ہونے سے بہت ہی کم لوگ خالی ہیں ۔ اب اس مسئلے سے حسب ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں : کیا واقعی جب تک کوئی فرض نماز باقی فی الذمہ ہے نوافل(جن میں سنن رواتب بھی داخل ہیں ) مقبو ل نہ ہوں گے؟ جو لوگ اس حالت میں کہ(قضا نمازیں ان کے ذمے ہیں ) ہر نماز کے ساتھ سنتیں اور نفلیں پڑھتے ہیں ،ان کی سنتوں اور نفلوں کا کیا ہوگا؟ کیا وہ ضائع کی جائیں گی یا قضا نمازوں میں محسوب ہوں گی؟ یہ اصول تو عام اور ہمہ گیر ہے، یقینا نمازوں کے ساتھ اس کی خصوصیت کی کوئی وجہ نہیں ، تو کیا روزوں اور دیگر فرائض شرعیہ میں بھی یہی اصول جاری ہے؟ خصوصیت کے ساتھ زکاۃ کے متعلق وضاحت فرمائیں ۔ اکثر لوگوں کی یہ حالت ہے کہ زکاۃ ادا نہیں کرتے لیکن نفل صدقات دیتے رہتے ہیں ۔ مثلاًکبھی کوئی چیز پکوا کر فقرا کو تقسیم کردی۔ کسی نیک کام میں چندہ دے دیا۔ سائلوں کو پیسے دے دیے۔ اسی طرح زمین دار اور کاشت کار حضرات عشر ادا نہیں کرتے لیکن برداشت ِ فصل کے موقع پر جمع شدہ سائلین کو کچھ دے دیتے ہیں اور سارا سال گداگروں کو ان کے گھر والوں کی طرف سے مٹھی آٹا اور غلہ دیا جاتا رہتا ہے، اس طرح دیتے وقت نہ ان کی نیت عُشر اور زکاۃ کی ہوتی ہے نہ انھوں نے عُشر اور زکاۃ کا کوئی حساب کر رکھا ہوتا ہے۔ اس طرح کے اخراجات کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟ کیا وہ سب دیا دلایا ضائع جارہا ہے یا عنداﷲ عُشر اور زکاۃ میں محسوب ہورہا ہے؟ اس اصول پر کہ(جب تک فرض ذمہ پر باقی رہتا ہے کوئی نفل قبول نہیں کیا جاتا)دلیل کی حیثیت سے جو قولہ تعالیٰ اِلَيْہِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُہٗ ۭ ({ FR 1729 }) (فاطر:۱۰) کا ذکر کیا جاتا ہے وہ کہاں تک صحیح ہے؟ کیا کسی حدیث میں عمل صالح کی تفسیر فرائض اور الکلم الطیب کی نفلی اذکار کے ساتھ وارد ہوئی ہے؟
جواب

آپ کے تمام سوالات جس وجہ سے پیدا ہوئے ہیں ،وہ صرف یہ ہے کہ ایک صحیح مسئلہ ذرا غلط طریقے سے بیان کردیا گیا ہے۔ کسی عمل کا قبول کرنا یا نہ کرنا انسانوں کے اختیار میں نہیں ہے، خداوند عالم کے اختیار میں ہے۔ اگر کسی کے ذمے فرضوں کی قضا لازم ہو اور فرض کی قضا ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاص کی بِنا پر وہ سنن ونوافل بھی ادا کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ اﷲ تعالیٰ اس کے اس خلوص کو رد فرما دے۔ ہاں ، اگر فرض کی قضا سے غافل رہ کر یہ کام کرے تو امید نہیں کہ یہ فعل اﷲ کے ہاں مقبول ہو گا، کیوں کہ فرض کی قضا بمنزلۂ قرض ہے،اور قرض ادا کرنے سے غفلت برت کر خیرات کرنے کے کوئی معنی نہیں ہیں ۔
البتہ جن لوگوں نے اپنی زندگی میں ایک زمانہ حالتِ جاہلیت میں گزار دیا ہو اور اس میں بے شمار نمازیں چھوڑ دی ہوں ، ان کے لیے پچھلی قضا بھی ادا کرنا اور سنن ونوافل بھی پڑھنا مشکل ہے۔ اس میں اندیشہ ہے کہ اکثر کسل کی بِنا پر وہ قضاادا کرنے سے رہ جائیں گے۔ اس کے برعکس اس میں بڑی سہولت ہے کہ ہر وقت کی فرض نماز کے ساتھ جتنی سنتیں بالعموم پڑھی جاتی ہیں ، ان کو سنت کی نیت سے پڑھنے کے بجاے آدمی پچھلے چھوٹے ہوئے فرائض کی قضا کے طور پر پڑھتا رہے، یہاں تک کہ اس امر کا گمان غالب ہوجائے کہ پچھلی سب قضائیں ادا ہوچکی ہیں ۔ اس طرح آدمی بغیر کسی دقت کے بآسانی اس فرض سے سبک دوش ہوسکتا ہے۔
آپ پڑھی ہوئی نمازوں کے ضائع ہونے یا نہ ہونے کا قصہ چھوڑیں ، اب جب کہ یہ مسئلہ آپ کو معلوم ہوگیا ہے تو آئندہ تمام سنتیں اور نوافل پچھلے چھوٹے ہوئے فرضوں کی نیت کرکے پڑھنا شروع کردیں ۔
چھوٹی ہوئی نمازوں ہی کی طرح قضا روزوں کا معاملہ بھی ہے۔جس کے فرض روزے چھوٹ گئے ہوں وہ نفل روزے رکھنے کے بجاے فرض کی نیت سے پچھلی قضا کیوں نہ ادا کرے۔
یہی معاملہ زکاۃ کا بھی ہے۔ آپ خود سوچیے، آخر یہ کس طرح صحیح ہوسکتا ہے کہ جس کے ذمے فرض زکاۃ واحب ہو وہ اسے تو ادا نہ کرے او ریوں خیرات کرتا پھرے۔ آخر کیوں نہیں وہ اسی طرح خیرات کو زکاۃ کا حساب لگا کر ادا کرتا؟ضائع کرنے یا قبول کرلینے کے اختیارات تو اﷲکو ہیں ، مگر جو بات ہماری اور آپ کی عقل میں آجاتی ہے کہ فریضے سے غفلت برت کر نوافل ادا کرنے میں کوئی معقولیت نہیں ہے،کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کی سمجھ میں اتنی بات بھی نہ آئے گی؟ اگر وہ پوچھیں کہ جو کچھ میں نے لازم کیا تھا،وہ توتو نے ادا نہیں کیا اور اپنی خوشی سے یہ سب کچھ دے دیا تو آخر کسی کے پاس اس کا کیا جواب ہوگا؟
آپ نے جس آیت کا حوالہ دیا ہے ،اس کے متعلق میرے علم میں کوئی صحیح حدیث ایسی نہیں ہے جس میں رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ہو کہ الکلم الطیّب سے مراد نفلی اذکار اور عمل صالح سے مرادفرائض ہیں ۔جن صاحب نے یہ استدلال پیش کیا ہے، آپ انھی سے دریافت کریں ۔ ممکن ہے کہ ان کے علم میں ایسی کوئی حدیث ہو۔ البتہ یہ ابن عباسؓ کی تفسیر ہے کہ الکلم الطیب سے مراد اﷲ کا ذکر ہے اور عمل صالح سے مراد فرائض ہیں ۔ اوریہ بھی انھی کی راے ہے کہ جو فرائض ادا کرے،اس کا عمل اس کے ذکر اﷲ کو لے کر اوپر صعود کرے گا، مگر جو محض ذکر کرے اور فرائض ادا نہ کرے ،اس کا ذکر رد کردیا جائے گا۔
(ترجمان القرآن، فروری۱۹۵۹ء)