چھپکلی کو مارنے کی وجہ

اُم شریکؓ کی روایت(بخاری جلد دوم،صفحہ۵۰۰) کے مطابق نبی ﷺ نے چھپکلی کو مارنے کا حکم دیا تھا کیوں کہ یہ اُس آگ کو پھونکوں سے بھڑکاتی تھی جس میں ابراہیم ؈ کو پھینکا گیا تھا۔سوال یہ ہے کہ ایک چھپکلی کی پھونکوں میں آگ بھڑکانے کی طاقت کہاں سے آگئی؟ اور پھر ایک چھپکلی کے جرم کے بدلے چھپکلیوں کی ساری نسل کو سزا دینا کہاں کا انصاف ہے؟
جواب

یہ حدیث[صحیح] بخاری،کتاب بدء الخلق،باب خیر مال المسلم غنم یتبع بہا شعف الجبال اور کتاب احادیث الانبیاء،باب ما قال اللّٰہ تعالٰی ﴿واتخذ اللّٰہ ابراھیم خلیلا ﴾ میں آئی ہے۔ اس مضمون کی تمام احادیث کو جمع کرنے سے جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ نبیؐ نے ’’وزغ‘‘({ FR 2125 }) کو موذی جانوروں میں سے قرار دیا تھا۔({ FR 1879 }) اور بعض روایات کی رُو سے یہ بھی فرمایا تھا کہ دوسرے موذی جانوروں کی طرح اسے بھی مار دیا جائے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ کی صحیح ترین روایت جو بخاری میں آئی ہے،اُس میں وہ فرماتی ہیں :
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِلْوَزَغِ الْفُوَيْسِقُ وَلَمْ أَسْمَعْهُ أَمَرَ بِقَتْلِهِ({ FR 1880 })
’’نبیؐ نے وزغ کو فویسق(موذی) فرمایا۔ مگر میں نے نہیں سنا کہ آپؐ نے اُسے مار ڈالنے کا بھی حکم دیا ہو۔‘‘
دوسری ایک روایت جو مسند احمد اور ابن ماجہ میں حضرت عائشہؓ سے مروی ہے، اس میں مار دینے کا بھی ذکر ہے اور حضرت ابراہیم؈ پر آگ پھونکنے کا بھی،({ FR 1885 }) مگر جیسا کہ حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری میں لکھا ہے: وَالَّذِی فِی الصَّحِیْح أَصَحُّ({ FR 1882 }) یعنی صحیح بخاری والی روایت ہی زیادہ صحیح ہے۔
پھر بخاری کی اس روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ وَزَعَمَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِقَتْلِهِ۔({ FR 1883 }) یعنی(سعد بن ابی وقاصؓ کا دعویٰ] خیال[ یہ تھا کہ حضور ﷺ نے اُسے مارڈالنے کا حکم دیا) لیکن اس روایت میں یہ تصریح نہیں ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے یہ بات کس نے سنی۔ دار قطنی میں یہ روایت اس طرح ہے کہ عن ابن شھاب عن سعد بن ابی وقاص۔ مگر ابن شہاب نے حضرت سعدؓ کو نہیں دیکھا۔ اس لیے یہ روایت منقطع ہے۔
آخر میں اُم شریک کی روایت آتی ہے جس میں مار ڈالنے کے حکم کی بھی تصریح ہے اور اس وجہ کی بھی کہ یہ جانور حضرت ابراہیم؈ پر آگ پھونکتا تھا۔({ FR 2132 })ممکن ہے اس میں دو چیزیں خلط ملط ہوگئی ہوں ۔ایک اس جانور کا موذی ہونا جو صحیح ترین روایت کی رُو سے حضور ﷺنے فرمایا تھا۔دوسرے اس کے بارے میں آگ پھونکنے کا وہ قصہ جو عوام میں مشہور تھا۔ تاہم اگر صحیح بات وہی ہو جو ام شریک والی روایت میں آئی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ گرگٹ کی پوری نسل کو اس لیے مارڈالا جائے کہ اس کے ایک فرد نے حضرت ابراہیم ؈ پر آگ بھڑکائی تھی۔بلکہ اس کامطلب یہ ہے کہ وہ ایک موذی جانور ہے اور اس کو دوسرے موذی جانوروں کی طرح انسان سے دشمنی ہے۔ چنانچہ سار ے جانوروں میں سے یہی وہ جانور تھا کہ جب حضرت ابراہیم ؈ کو آگ میں ڈالا گیا تو اس نے اُس آگ کو پھونکنے کی کوشش کی۔یہاں یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ گرگٹ کی پھونک میں آگ بھڑکانے کی طاقت کہاں سے آئی۔اس لیے کہ حدیث میں سرے سے یہ کہا ہی نہیں گیا ہے کہ وہ آگ اس کے بھڑکانے سے بھڑکی تھی۔ (ترجمان القرآن ، اکتوبر ونومبر۱۹۵۲ء)