کبائر کے مرتکب مسلمانوں کا حکم

کبائر کے مرتکب مسلمانوں کا کیاحکم ہے؟
جواب

سوال کا جواب بھی آج نئے سرے سے دینے کے بجاے اپنا ایک پرانا جواب ہی نقل کرتا ہوں جو اب سے کئی برس پہلے دیا گیا تھا۔نومبر ودسمبر۱۹۴۵ء کے’’ترجمان القرآن‘‘ میں ایک صاحب کے سوال کا جواب دیتے ہوئے میں نے پہلے یہ بتایا تھا کہ کفر کی دو قسمیں ہیں ،ایک کفر باعتبار حقیقت، جس کی بنا پر آدمی عند اﷲ مومن نہیں رہتا،دوسرا کفر باعتبار ظاہر جس کی بنا پر ایک آدمی کو خارج ازملت قرار دے کر اسلامی سوسائٹی سے کاٹ پھینکنا جائز ہو۔ اس کے بعد پہلی قسم کے متعلق میں نے لکھاتھا:
’’اس میں شک نہیں کہ معصیت ایمان کی ضد ہے،لیکن مجرد معصیت،خواہ وہ کتنی ہی بڑی ہو،لازماًایمان کے مستقل طور پر سلب ہوجانے کی موجب نہیں ہوتی۔کافر کی طرح مومن سے بھی بڑے سے بڑا گناہ سرزد ہوسکتا ہے۔البتہ جو چیز مومن کے گنا ہ اور کافر کے گناہ میں فرق کرتی ہے،وہ یہ ہے کہ مومن جب گناہ کرتا ہے تو عین حالت گناہ میں توایمان اس سے نکلا ہوا ہوتا ہے، لیکن جب وہ شہوات نفس کے اس غلبے اور نادانی کے اس پردے سے،جو عارضی طور پر اس کے قلب پر پڑ گیا تھا،باہر نکل آتا ہے تو اس کو شرم ساری لاحق ہوتی ہے۔خدا سے نادم ہوتا ہے،آخرت کی سزا کا خوف کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ پھر اس سے ایسی حرکت کا ارتکاب نہ ہو۔ اس قسم کی معصیت خواہ کتنی ہی بڑی ہو،آدمی کو کافر نہیں بناتی،صرف گناہ گار بناتی ہے اور توبہ اس کو ایمان کی طرف واپس لے آتی ہے۔برعکس اس کے کافر کے گناہ کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ اسی گناہ گارانہ طرز عمل اور طرززندگی کو اپنے لیے مناسب اورلذیذ اور درست سمجھتا ہے،اس کو خدا کی اور اس کے حکم کی کچھ پروا نہیں ہوتی کہ اس نے اس فعل کو گناہ اور حرام قرار دیا ہے،وہ پورے اصرار واستکبار کے ساتھ اسی فعل کا ارتکاب کیے جاتا ہے اور ندامت اس کے پاس نہیں پھٹکتی۔یہ دوسری قسم کی گناہ گاری سلب ایمان کی موجب ہے اور یہ بجاے خود کبیرہ ہے،خواہ اس کے جذبے کے ساتھ کوئی ایسا کام ہی کیا جائے جس کو عرف عام میں ’’صغیرہ‘‘ سمجھا جاتا ہو۔ ان دونوں قسم کے گناہوں کو ایک ہی حیثیت دینا اور ان پر یکساں کفر کا حکم لگا دینا بالکل غلط ہے اور اس قسم کی افراط وتفریط خود کبیرہ کی تعریف میں آتی ہے۔پہلی صدی سے آج تک بجز خارجیوں کے،یا معتزلہ کے گروہ کے، اور کسی نے یہ راے قائم نہیں کی۔‘‘
پھر دوسری قسم کے کفر کے متعلق میں نے لکھا تھا:
’’اس چیز کے متعلق یہ جان لینا چاہیے کہ شریعت نے ایسی تکفیر کو ہر کس وناکس کی راے کا کھلونا نہیں بنایا ہے۔جس طرح کسی انسان کے جسمانی قتل کے لیے یہ شرط ہے کہ نظامِ اسلامی موجود ہو اور باختیار قاضی تمام شہادتوں اور پوری صورت حال پر غور کرکے پوری تحقیق کے بعد یہ راے قائم کرے کہ یہ شخص واجب القتل ہے،تب اسے قتل کیا جاسکتا ہے، اسی طرح ایک شخص کے روحانی قتل، یعنی تکفیر کے لیے بھی یہ شرط ہے کہ اس کے اوپر جو الزام کفر لگایا گیا ہے،اس کی ایک قاضی شرع پوری تحقیق کرے،اس کا اپنا بیان لے،اس کے اقوال وافعال کو جانچ کر دیکھے،شہادتوں پر غور کرے اور اس کے بعد فیصلہ کرے کہ یہ شخص جماعت مسلمین سے کاٹ کر پھینک دینے کے لائق ہے۔‘‘
غور کیجیے کہ جو لوگ اس قدرصاف اور صریح بیان کے باوجود مجھ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ میں خوارج کی طرح گناہِ کبیرہ کے مرتکب کو کافر قرار دیتا ہوں ،وہ کتنا بڑا جھو ٹ بولتے ہیں اور اسے پھیلاکر کتنا بڑا وبال اپنے سر لیتے ہیں ۔ لطف یہ ہے کہ مجھ پر یہ الزام آج وہ لوگ لگا رہے ہیں جن کا اپنا دامن بہت سے اگلے اور پچھلے مسلمانوں کی تکفیر سے آلودہ ہے اور جن کے اپنے قلم سے لکھے ہوئے بہت سے فتاواے تکفیر موجود ہیں ۔ کیا یہ لوگ میری بھی کوئی ایسی تحریر پیش کرسکتے ہیں جس میں میں نے کبھی کسی مسلمان کی تکفیر کی ہو ؟({ FR 1725 }) (ترجمان القرآن،ستمبر۱۹۵۱ء)