کسی وبا کو عذاب قراردینے کا ہمیں حق نہیں

آج کل کورونا نامی مرض پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے اور لاکھوں افراد اس سے متاثر ہوئے ہیں ۔بعض تحریریں اس پر نظر سے گزریں ، جن میں اس کو اللہ کا عذاب قرار دیا گیا ہے۔ یہ مرض مسلم ممالک میں بھی پھیلا ہوا ہے اوراس سے مسلمان بھی بڑی تعداد میں متاثر ہوئے ہیں ۔ پھر اسے عذاب ِ الٰہی کہناکیوں کر درست ہوگا؟
جواب

کورونا پرآج کل بہت سی تحریریں ایسی منظر عام پر آرہی ہیں جن میں اس کو 'عذابِ الٰہی ' سے تعبیر کیا گیا ہے۔ لکھا گیا ہے کہ دنیا کے بہت سے حصوں میں مسلمانوں کو ستایا گیا، ان کا قتلِ عام کیا گیا، ان کی املاک تباہ و برباد کی گئیں اور انھیں جلا وطن کیا گیا۔اس پر قدرتِ الٰہی کو جوش آگیا، چنانچہ اس نے ان پر کورونا وائرس (COVID-19) کی شکل میں ہمہ گیر عذاب مسلّط کردیا ہے۔ _ درست بات یہ ہے کہ اس قدرتی آفت کو عذاب کہنے کا ہم میں سے کسی کو حق نہیں ہے۔
حضرت اسامہ بن زیدؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺنے ایک موقع پر ارشاد فرمایا:
’’إِنَّ ہٰذَا الطَّاعُوْنَ رِجْزٌ سُلِّطَ عَلَی مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ، فَإِذَا کَانَ بِأرْضٍ فَلَا تَخْرُجُوْا مِنْہَا فِرَاراً مِنْہُ، وَإِذَا کَانَ بِأرْضٍ فَلَا تَدْخُلُوْہَا ۔‘‘
(بخاری۳۴۷۳، مسلم۲۲۱۸)
’’طاعون ایک عذاب ہے، جسے تم سے پہلے کچھ لوگوں پر مسلّط کیا گیا تھا _۔ جب یہ کسی علاقے میں پھیلے اور تم وہاں ہو تو فرار اختیار کرتے ہوئے وہاں سے نہ نکلو اور تم کہیں اور ہو تو وہاں نہ جاؤ ‘‘۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی زمانے میں طاعون کو عذابِ الٰہی کے طور سے کسی قوم پر مسلّط کیا تھا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جہاں بھی اس کا کبھی ظہور ہو، لازم ہے کہ وہ عذابِ الٰہی کے طور پر ہو۔ دوسری بات اس سے یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ کسی قدرتی آفت کو '’عذاب‘ متعیّن طور پر یا تو وحی قرار دے سکتی ہے یا زبانِ رسالت اس کی صراحت کرسکتی ہے۔ کسی دوسرے انسان کو حق نہیں کہ وہ اسے عذاب قرار دے۔
اللہ تعالیٰ انسانوں کو آزماتا ہے، اپنی نعمتوں سے نواز کر بھی اور نعمتوں کو چھین کر بھی ۔ وہ انہیں آزماتا ہے راحت و آسائش عطا کرکے بھی اور تکالیف و مصائب میں مبتلا کرکے بھی ۔ اس طرح وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس کی نعمتوں کو پاکر اس کا شکر ادا کرتے ہیں ، یا اِترانے اور گھمنڈ کرنے لگتے ہیں اور تکالیف و مصائب میں صبر کا دامن تھامتے ہیں ، یا جزع و فزع کرنے لگتے ہیں ۔ انسانوں کا درست رویّہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو پائیں تو سجدۂ شکر بجا لائیں اور آفتوں کا شکار ہوں تو اس کی طرف رجوع ہوں ، اپنی خطاؤں اور لغزشوں پر معافی مانگیں اور آئندہ اپنا رویّہ درست کرلیں ۔
اس حدیث کے آخر میں جو بات کہی گئی ہے وہ انتہائی اہم اور قابل توجہ ہے۔ آج ’قرنطینہ‘ (Quarantine) کا پوری دنیا میں چرچا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ کسی وبائی مرض کا شکار ہوں وہ اپنے علاقے سے کہیں باہر نہ جائیں اور دوسری جگہوں پر رہنے والے لوگ اس مقام سے دور رہیں جہاں کوئی وبائی مرض پھیلا ہوا ہو ۔ یہ انتہائی سائنٹفک بات ہے ۔ آج کی دنیا اسی پر عمل کی برابر تلقین کررہی ہے۔
خلاصہ یہ کہ کسی وبائی مرض کو عذابِ الٰہی کہنے کی جلدی نہیں کرنی چاہیے، بلکہ اسے آزمائش سمجھنا چاہیے اور دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے اور جو لوگ اس میں مبتلا ہوگئے ہوں انہیں جلد شفا عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین!