گائے کی تعظیم اور پوجا کی تاریخ

آپ گائے کی پوجا پر روشنی ڈالیں اور واضح کریں کہ یہ کب سے شروع ہوئی اور کیسے پھیلی، ممکن ہے کہ کچھ حق پسند ہندو مطمئن ہوجائیں اور اپنی قوم کی اصلاح کریں ۔
جواب

میرے لیے اس وقت ان چیزوں پر تفصیلی بحث کرنا مشکل ہے۔ مختصراً اظہارِ خیال کرتا ہوں :
ہند ومذہب کے متعلق میری معلومات اتنی زیادہ وسیع نہیں ہیں کہ میں اس کے کسی مسئلے پر تحقیقی بحث کرسکوں ، اور بغیر کافی معلومات کے کسی چیز پر بحث وتنقیدکرنا مناسب نہیں ہے۔جو تھوڑی بہت واقفیت مجھے حاصل ہے، اس کی بِنا پر میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ قدیم عہد میں جس کو ویدک عہد کہا جاتا ہے،گائے کی تقدیس کا عقیدہ موجود نہ تھا، یا اگر تھا تو بالکل ابتدائی حالت میں تھا۔چنانچہ اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ اس دور میں ہندو گائے کی قربانی کیا کرتے تھے۔ علم الاقوام کی رُو سے بھی یہ ثابت ہے کہ قدیم آریہ قوم خانہ بدوش گلہ بانوں کی تہذیب سے تعلق رکھتی تھی، جس میں گائو پرستی قطعاً مفقود تھی۔بعد میں اس کا سابقہ اس مادری تہذیب سے ہوا جو ہندستان کی دراوڑی قوموں اور عراق،مغربی ایشیا اور مصر میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس تہذیب کی حامل اقوام زراعت پیشہ تھیں اور ان میں گائے کی تقدیس پائی جاتی تھی۔پس تحقیق اسی طرف ہماری راہ نمائی کرتی ہے کہ جس طرح بنی اسرائیل کو مصر سے گائو پرستی کی چھوت لگی اسی طرح قدیم آریوں کو بھی یہ چھوت ہندستان آکر لگی ہے۔ جہاں تک گائے کی پوجا کا تعلق ہے وہ تو ہندوئوں کے ایک خاص طبقے میں ہی پائی جاتی ہے لیکن اس کی تقدیس پوری ہندو قوم میں پھیلی ہوئی ہے،بلکہ جو لوگ ہندوئوں سے نکل کر اسلام یا عیسائی مذہب میں داخل ہوئے ہیں ان کے بھی ایک اچھے خاصے عنصر میں اس کا کچھ نہ کچھ اثر محض اس لیے پایا جاتا ہے کہ ان کی تبدیلی ذہن پوری طرح نہیں ہوئی۔
خاص طور پر اس عقیدے کی تردید کے لیے کچھ کہنا غالباً مفید نہ ہوگا،کیوں کہ ایک غلط عقیدہ بہت سے دوسرے غلط عقائد کے ساتھ ہم رشتہ ہوتا ہے اور ایک ان سب کی اصل جڑ ہوا کرتی ہے۔ جب تک اصل اور شاخوں کے پورے سلسلے کی اصلاح نہ کی جائے، محض کسی ایک شاخ کو درست کرنے کی کوشش کام یاب نہیں ہوسکتی۔اس قسم کے تمام غلط عقائد کی جڑ یہ ہے کہ انسان اس کائنات کے نظام اور اُ س میں اپنے صحیح مقام اور مالکِ کائنات کے ساتھ اپنے اور دوسری موجودات کے تعلق کی نوعیت کو سمجھنے میں غلطی کرتا ہے۔اس ابتدائی اور بنیادی غلط فہمی سے نتیجے کے طور پر بے شمار غلط فہمیوں کا ایک سلسلہ پیدا ہوجاتا ہے جو سب ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہوتی ہیں اور ایک پورا نظامِ فکر اور نظامِ زندگی پیدا کردیتی ہیں ۔اگر کوئی شخص اس بات کو سمجھ لے کہ اس ساری کائنات کا ایک ہی خالق اور ایک ہی مالک ومتصرف اور ایک ہی حاکم ومدبّر ہے اور انسان دنیا میں اس کے خلیفہ و نائب کی حیثیت سے پیدا کیا گیا ہے اور دنیا کی ساری چیزیں انسان کے لیے خادم بنائی گئی ہیں تو ایسا شخص شرک اور مخلوق پرستی اور مادّی یا روحانی یا خیالی چیزوں کی تقدیس کے ہر شائبے سے خود بخود پاک ہوجائے گا اوراس کے دل میں ایک خدا کے سوا کسی کی عبودیت اور کسی کی تقدیس کے لیے جگہ باقی نہ رہے گی۔پھر اگر کسی شخص میں صحیح قسم کا معقول پسندانہ رویہ(true rationalism)موجود ہو تو وہ موروثی تعصبات اور قومی ونسلی تعصبات اور شخصی ونفسیاتی تعصبات سے خود بخود خالی ہوجائے گا اور اپنی فکر اور اپنے عمل کو پوری بے لوثی کے ساتھ اس طریقے پر قائم کرے گا جو سرا سر معقول ہو۔
(ترجمان القرآن ، جنوری۱۹۴۶ء)