گرنتھ صاحب اور انسانیت کی راہ نمائی

سکھ قوم کی مذہبی کتاب ’’گرنتھ‘‘ صرف اخلاقی پندو نصائح کا مجموعہ ہے اوراس کو بلحاظ موضوع ومباحث ’’گلستاں ‘‘،’’بوستاں ‘‘ وغیرہ کتا بوں کی صف میں رکھا جاسکتا ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مختلف مذاہب کے صالح اور صوفی منش بزرگوں کے ارشادات ونصائح اس میں جمع کیے گئے ہیں ۔ کتاب کو مدوّن کرنے والے کا منشا کچھ اور معلوم ہوتا ہے۔ مگر اس منشا کے بالکل خلاف اب یہ ایک قوم کی الہامی کتاب بن گئی ہے۔ حالاں کہ اس میں نہ تو تمدنی مسائل سے بحث ہے ،نہ معاشرت سے کوئی سروکار،نہ معاشیات وسیاسیات میں اس میں کوئی راہ نمائی مل سکتی ہے۔ مگر میری عقل کام نہیں کرتی کہ تعلیم یافتہ اور ذہین لوگ تک کیوں کر اس پر مطمئن ہیں ؟
جواب

گرنتھ صاحب کا مطالعہ میں نے خود تو نہیں کیا۔جس حد تک میں نے مطالعہ کرنے والوں سے معلومات حاصل کی ہیں ،ان کی بِنا پر میں آپ کے اس خیال سے متفق ہوں کہ سکھ مذہب محض ایک صوفیانہ مذہب ہے اور اس میں انسان کی زندگی کے بڑے بڑے مسائل مثلاً تمدن ومعاشرت، سیاست و معیشت، عدالت وقانون، صلح وجنگ وغیرہ کے متعلق کوئی ایسی ہدایت موجود نہیں ہے جس پر دنیا میں ایک سوسائٹی اور ایک اسٹیٹ کی تعمیر ہوسکے۔لیکن جس وجہ سے سکھوں کے تعلیم یافتہ اور صاحب فکر وفہم لوگ اپنی جستجوے حق اور تلاشِ ہدایت کو معطل کیے ہوئے اس مذہب پر قانع ہیں ،اس کی تشریح میں ] سوال۸۳۳ [ کے جواب میں کرچکا ہوں ۔ (ترجمان القرآن ، جنوری ۱۹۴۶ء)