یہود کی ذلت ومسکنت

میرے ذہن میں د و سوال بار بار اُٹھتے ہیں ۔ایک یہ کہ وَضُرِبَتْ عَلَيْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْكَنَۃُ ({ FR 2243 }) (البقرہ:۶۱) جو یہود کے بارے میں نازل ہوا ہے اس کا مفہوم کیا ہے؟ اگر اس کا مطلب وہی ہے جو معروف ہے تو فلسطین میں یہود کی سلطنت کے کیا معنی؟ میری سمجھ میں اس کی تفسیر انشراحی کیفیت کے ساتھ نہ آسکی۔ اگر اس کے معنی یہ لیے جائیں کہ نزول قرآن پاک کے زمانے میں یہود ایسے ہی تھے تو پھر مفسرین نے دائمی ذلت ومسکنت میں کیوں بحثیں فرمائی ہیں ۔ بہرحال یہود کے موجودہ اقتدار وتسلط کو دیکھ کر ذلت ومسکنت کا واضح مفہوم سمجھ میں نہیں آیا۔
جواب

ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ کے بارے میں میرا بھی یہی عقیدہ ہے کہ یہ تاقیامت ہے۔اس میں فلسطین کی موجودہ اسرائیلی حکومت بن جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اوّل تو آیت تمام یہودی ملت کے بارے میں بحیثیت مجموعی ایک حکم لگاتی ہے،اس کے ایک ایک فرد پر یا افراد کے چھوٹے چھوٹے مجموعوں پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔دوسرے یہ اس کیفیت کا بیان ہے جو اﷲ تعالیٰ کا فیصلہ صادر ہونے کے بعد سے قیامت تک ان پر من حیث المجموع دنیا بھر میں طاری رہے گی۔اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس طویل مدت کے دوران میں کبھی کسی مختصر مدت کے لیے بھی زمین کے کسی گوشے میں انھیں قوت واقتدارنصیب نہ ہو۔ دراصل اس آیت کو سمجھنے کے لیے یہودی قوم کی اس تاریخ سے واقف ہونا ضروری ہے جو حضرت عیسیٰ ؑ کے بعد سے آج تک گزری ہے۔ اس تاریخ کو،اور ان کی موجودہ حالت کو جو بحیثیت مجموعی دنیا میں آج بھی پائی جاتی ہے ،بغور دیکھا جائے تو قرآن مجید کے ان ارشادات کی پوری تصدیق ہوجاتی ہے:
وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْہِمْ اِلٰي يَوْمِ الْقِيٰمَۃِ مَنْ يَّسُوْمُہُمْ سُوْۗءَ الْعَذَابِ ( الاعراف:۱۶۷)
’’ اور جب اعلان کردیا تیرے رب نے کہ وہ قیامت تک ان پر کسی نہ کسی ایسے شخص کو مسلط کرتا رہے گا جو ان کو سخت عذاب دے گا۔‘‘
ضُرِبَتْ عَلَيْہِمُ الذِّلَّـۃُ اَيْنَ مَا ثُـقِفُوْٓا اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللہِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ (آل عمران:۱۱۲)
’’ان پر ذلت تھوپ دی گئی جہاں بھی وہ پائے جائیں بجز اس کے کہ کہیں ان کو اﷲ کی طرف سے اور انسانوں کی طرف سے تحفظ کی ضمانت مل جائے ۔‘‘
پوری تاریخ یہی بتاتی ہے کہ وقتاًفوقتاً دنیا کے کسی گوشے میں کوئی نہ کوئی طاقت ایسی اُٹھتی رہی ہے جو یہودیوں کو خوب مارتی کھدیڑتی رہی، اور جہاں کہیں بھی وہ بخیریت رہے ہیں ، اپنے بل بوتے پر نہیں بلکہ اﷲ کے دیے ہوئے مواقع کی بنا پر کسی دوسرے ہی انسانی گروہ کی حمایت میں آجانے کی وجہ سے رہے ہیں ۔ موجودہ یہودی ریاست بھی برطانیا اور امریکا کی حمایت ہی میں قائم ہوئی ہے اور باقی ہے۔ یہ حمایت جس وقت بھی ہٹے گی،اس ریاست کا حشر دنیا دیکھ لے گی۔ میرا خیال یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس قوم کو فنا نہیں کرنا چاہتا بلکہ نمونۂ عبرت بنا کر باقی رکھنا چاہتا ہے۔اگر اس پر مسلسل عذاب کا کوڑا ہی برستا رہتا تو یہ کبھی کی فنا ہو چکی ہوتی۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے اس کے باقی رہنے کا یہ انتظام کردیا ہے کہ کہیں وہ پیٹی جاتی ہے تو کہیں اسے اللّٰہ کی پناہ بھی مل جاتی ہے۔اس طرح ڈھائی ہزار برس سے لَا یَمُوْتُ فِیْھَا وَلَا یَحْیٰی کے مصداق اس دنیا میں جیے جا رہی ہے۔ (ترجمان القرآن،اپریل ۱۹۶۲ء)