گزارش یہ ہے کہ قرآن مجید کی تفسیریں اکثر وبیشتر میرے مطالعہ میں رہاکرتی ہیں جن میں مولانا مودودی کی تفہیم القرآن بھی ہے۔لہٰذا دوران مطالعہ ایک اشکال پیداہوگیا جس کی وجہ سے بہت الجھن میں ہوں۔ نیز یہ جرأت نہیں ہورہی تھی کہ سوال کروں کیوں کہ گزشتہ ماہ ایک ذی علم واہل قلم سے ایک تحریری سوال کیاتھا تو انھوں نے جواب ضروردیااور توضیح وتفہیم بھی فرمائی مگر سخت وترش لہجے میں۔ مزید برآں ناراض ہوکر سخت وسست جملے بھی مجھ کم علم سائل پرکسے تھے اس لیے ہمت نہیں ہورہی تھی۔ بہت غورکے بعد دست بستہ با ادب آپ کی خدمت میں اشکال بھیجا ہے اور امید کرتاہوں کہ حق توضیح وتفہیم ادا فرماکر شکریہ کاموقع دیں گے۔
تفہیم القرآن سورۃ الاحزاب ۲۲ج۴ص۱۳۶آیت ۷۲ کی تفسیر کے تحت حاشیہ ۱۲۰ میں مرقوم ہے کہ (اِنَّا عَرَضْنَاالْاَمَانَۃَ الخ)اس جگہ امانت سے مراد وہی خلافت ہے جو قرآن مجید کی رو سے انسان کو زمین میں عطاکی گئی ہےــــــقرآن مجید میں دوسرے مقامات پر ان کو خلافت کے لفظ سے تعبیر کیاگیا ہے اور یہاں انھیں کے لیے امانت کا لفظ استعمال کیاگیا ہے۔ اسے پڑھ کر حیرت ہوئی کہ یہ تفسیر نہ کہیں سنا اور نہ دیکھا۔ لہٰذا ازالہ شک وحیرت کے لیے حسب ذیل کتب تفسیر کی طرف مراجعت کی۔ جلالین، مدارک، مظہری، حقانی، بیان القرآن نیز درمنشورکی ایک روایت بھی نظر سے گزری۔ نتیجہ میں ان مفسرین نے امانت سے طاعت، فرائض، احکام مراد لیا ہے، خلافت ہرگز نہیں مراد لیا ہے۔ آخر ان نفوس قدسیہؒ نے بھی تو بوقت تفسیر، تفاسیر مفسرین، روایات احادیث، ارشادات اکابرینؒ ضرورپیش نظر رکھا ہوگا۔پھر ان حضرات نے وہ تفسیر کیوں نہیں فرمائی جو مولانا مودودی صاحب نے فرمائی ہے۔ میں اس کو مولانا موصوف کی جدت طرازی کے علاوہ کیا کہوں ؟ اگر یہ تفسیر کہیں سے ماخوذ ومنقول ہے تو حوالہ کیوں نہیں دیاگیا؟ اور اگر خود مولانا کی طبع زاد ہے تو تلقی بالقبول سے ابا ہے کیوں کہ مستندومسلم ہستیوں کی تفسیر کے خلاف ہے۔ ایسی غیرذمہ دارانہ روش کا صدورمولانا موصوف کی ذات گرامی سے یقیناً حیرت انگیز وتعجب خیزہے۔ مولانا نے تفسیرمیں جو دعویٰ کیا ہے اس کی دلیل نہیں دی ہے۔
جواب
آپ نے لکھا ہے کہ گزشتہ ماہ کسی اہل علم نے سخت اور ترش لہجے میں آپ کے سوال کا جواب دیا اور آپ کے لیے بھی انھوں نے سخت سست جملے استعمال کیے۔ اسی لیے آپ کو اندیشہ تھا کہ کہیں میں بھی آپ کو سخت سست نہ کہہ ڈالوں۔ سوال اگر سوال کے انداز میں ہوتو جواب میں تلخ وترش لہجہ اختیار کرنا یا سائل کو سخت سست کہنا ایک غلط بات ہے۔لیکن سائل کو بھی یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ جواب معلوم کرنے کے لیے کوئی سوال کررہاہے یا خود کوئی فیصلہ سنا رہاہے۔ میں یہ عرض کروں گا کہ آپ نے اپنے بارے میں کسی دوسرے شخص کے جس رویے کی شکایت کی ہے وہی رویہ مولانا مودودی کے ساتھ خود اختیار کیا ہے۔ ایک طرف تو آپ اپنے سوال کو اشکال کہہ کر مجھ سے اس کی توضیح وتفہیم چاہتے ہیں اور دوسری طرف مولانا کی تفسیر پرجدت طرازی اور طبع زاد ہونے کا الزام بھی لگارہے ہیں اور ان کی روش کو غیرذمہ دارانہ بھی کہہ رہے ہیں۔ گویا آپ تحقیق کرکے خود ایک فیصلے پرپہنچ چکے ہیں۔ آپ غورکریں کہ اس کے بعد مجھ سے یا کسی اور سے سوال کرنے کی ضرورت ہی کیا باقی رہتی ہے؟میں تویہ جانتا ہوں کہ کسی تفسیری قول پر جدت طرازی اوراس کے طبع زاد ہونے کا الزام اس وقت صحیح ہوتا ہے جب وہ خود قرآن سے یا دین کے کسی کلیہ سے متصادم ہو، یا لغت اور محاورات واستعمالات کے خلاف ہو۔ محض یہ بات کہ وہ قول کسی سابق مفسر سے منقول نہیں، اس کو قابل طنز وتعریض نہیں بناتا اور نہ اسے جدت طرازی کہنا صحیح ہے۔ ورنہ شاید ہر پچھلا مفسر اگلے مفسر کے مقابلے میں جدت طرازہی قرار پائے گا الا یہ کہ اس نے خود کچھ سوچنے کے بجائے اگلے مفسرین کے اقوال کو نقل کردینا ہی کافی سمجھاہو۔
اگر آپ خلافت کے معنی ومفہوم اور پھر ان الفاظ کے معنی ومفہوم پرغورکرلیتے جو آپ نے کتب تفاسیر دیکھ کر اپنے خط میں نقل کیے ہیں تو آپ کو مولانا مودودی کی تفسیر پر حیرت نہ ہوتی اور نہ جدت طرازی کہنے کی ضرورت پیش آتی۔ کیوں کہ خلافت کامفہوم طاعت، فرائض اور احکام کے مفہوم سے متصادم نہیں ہے بلکہ متوافق ہے۔
خلافت کامفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو کچھ اختیارات دے کر دنیا میں اس لیے بھیجا ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی اس کی ہدایات اور احکام کے تحت بسر کرے اور تفویض کردہ اختیارات کو اپنے مالک کے منشا کے مطابق کام میں لائے، اس میں اس کی آزمائش ہےــــــ طاعت، فرائض اور احکام کے الفاظ کامفہوم یہ ہے کہ انسان اپنی پوری زندگی میں اللہ کی اطاعت کرے، جو فرائض اس پر عائد کیے جائیں انھیں انجام دے اور اللہ کے احکام پرعمل کرے۔ اب آپ غور کریں کہ خلافت والا قول ان اقوال کے خلاف ہے یا ان کے موافق ہے۔ کیا محض اس لیے کہ جن تفسیروں کا آپ نے مطالعہ کیا ان میں امانت کی تفسیر میں خلافت کا لفظ نہیں ملا، آپ اسے طاعت، فرائض اور احکام کے خلاف کہہ دیں گے؟ آپ نے یہ جو لکھا ہے کہ مولانا نے کوئی دلیل نہیں دی اس کی وجہ یہ ہے کہ عبارت نقل کرنے میں جہاں آپ نے نقطے لگائے ہیں اسی میں دلیل پوشیدہ ہوگئی ہے، حد یہ ہے کہ آپ نے ’اس لیے ‘ کا لفظ بھی حذف کردیا ہے جو صراحتاًپہلے کی عبارت کے دلیل ہونے پر دلالت کررہاتھا۔ مولانا کی پوری عبارت یہ ہے
’’اس جگہ ’امانت‘سے مراد وہی ’خلافت ‘ ہے جو قرآن مجید کی روسے انسان کو زمین میں عطا کی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو طاعت ومعصیت کی جو آزادی بخشی ہے اور اس آزادی کو استعمال کرنے کے لیے اسے اپنی بے شمار مخلوقات پر تصرف کے جو اختیارات عطاکیے ہیں ان کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان خود اپنے اختیاری اعمال کا ذمہ دار قرارپائے اور اپنے صحیح طرز عمل پراجر کا اور غلط طرز عمل پر سزاکا مستحق بنے۔ یہ اختیارات چوں کہ انسان نے خود حاصل نہیں کیے ہیں بلکہ اللہ نے اسے دیے ہیں اور ان کے صحیح وغلط استعمال پروہ اللہ کے سامنے جواب دہ ہے۔ اس لیے قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر ان کو ’خلافت ‘ کے لفظ سے تعبیر کیاگیا ہے اور یہاں انھیں کےلیے ’امانت ‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔‘‘
مولانا کی دلیل کاحاصل یہ ہے کہ انسان کوئی ایسی مخلوق نہیں ہے جو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کی طرح اللہ کی نافرمانی کرہی نہ سکتی ہو بلکہ زمین پراسے ایک ایسی بااختیار مخلوق بناکر بھیجا گیا ہے جو اللہ کے امر تشریعی کی اطاعت بھی کرسکتی ہے اور نافرمانی بھی اور اس کوخود اپنے اعضا وجوارح پر اور دنیا کی دوسری چیزوں پرتصرف کے جو اختیارات دیے گئے ہیں وہ اس کے ذاتی نہیں بلکہ اللہ کے تفویض کردہ ہیں اور اس کے سامنے اس استعمال کی جواب دہی بھی کرنی ہے۔ اگر وہ انھیں اپنے مالک کے منشا کے مطابق استعمال کرے گا تو مستحق اجر ہوگا ورنہ مستحق سزا۔ طاعت ومعصیت کی یہ آزادی اوراستعمال اختیارات پرثواب یا عقاب کا یہ استحقاق ہی وہ چیز ہے جس کو سورۂ احزاب کی اس آیت میں ’امانت ‘ کہاگیا ہے اور اسی حقیقت کو دوسرے مقامات میں ’خلافت‘ کے لفظ سے تعبیر کیاگیا ہے۔ چوں کہ خلافت اور امانت اپنے مفہوم اور اپنی حقیقت کے لحاظ سے ایک ہیں۔ اس لیے اس آیت میں ’امانت ‘ سے مراد وہی خلافت ہے جو انسان کو زمین میں عطا کی گئی ہے۔ یہی وہ منصب عظیم ہے جس کی اہلیت نہ فرشتوں میں تھی نہ پہاڑوں میں نہ زمین میں تھی اور نہ آسمانوں میں۔
یہ جو کچھ عرض کیاگیا اتنے ہی سے واضح ہوجاتا ہے کہ مولانا کی تفسیر نہ سابق مفسرین کی تفسیروں کے خلاف ہے اور نہ بے دلیل ہے۔ آپ کا خط پڑھنے کے بعد راقم الحروف نے بھی چند کتابوں کامطالعہ کیا ہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کا بھی ایک حصہ یہاں پیش کردیا جائے تاکہ بات اور واضح ہوجائے۔
ابن جریر طبری متوفی ۳۱۰ھ نے اپنی تفسیر میں دس اقوال سند کے ساتھ لکھے ہیں۔ ان میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے دو قول منقول ہیں فرائض اور طاعت۔ ان کا خلاصہ یہ ہے
’’اللہ تعالیٰ نے پہلے آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پراپنی یہ امانت پیش کی لیکن وہ اسے اٹھانہ سکے، ان کا انکار نافرمانی کی بناپر نہ تھا بلکہ دین اللہ کی تعظیم کے احساس نے ان کو انکار پر مجبور کیاتھا۔ان کو اندیشہ تھا کہ کہیں وہ اس کڑی شرط کو پورا کرنے میں ناکام نہ ہوجائیں۔ ان کے بعد اللہ نے اسے آدم کے سامنے پیش کیا۔ اللہ نے سوال کیا کیا تم اس شرط کے ساتھ جو اس میں ہے قبول کرتے ہو؟ انھوں نے پوچھا وہ شرط کیا ہے؟ جواب ملاکہ اگر تم اسے ادا کروگے تو جزاپائوگے اور اگر اسے ضائع کروگےتو سزادی جائے گی۔ آدم نے اس شرط کے ساتھ اسے قبول کرلیا۔‘‘
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا قول ہے کہ امانت، نماز روزے اور وضو میں بھی ہے لیکن سب سے سخت، لوگوں کی امانتیں ہیں جو دوسرے لوگوں کے پاس رکھی جاتی ہیں۔ حضرت ابوالدرداءؓ نے فرمایا کہ امانت سے مراد غسل جنابت ہے۔ حضرت ابی بن کعبؓ سے مروی ہے کہ وہ عورت کی عصمت ہے۔ قتادہ نے اس کی تفسیر دین، فرائض اور حدود سے کی ہے۔ حکم بن عمرو صحابی کی تفسیر ’اوامرونواہی‘ کو امانت کہتی ہے۔ دسوں اقوال کو نقل کرنے کےبعد ابن جریر نے خود اپنی رائے یہ دی ہے
واولی الاقوال ماقالہ الذین قالوا انہ عنی بالامانۃ فی ھذا الموضع جمیع معانی الامانات فی الدین وامانات الناس۔ (ابن جریرج۲۲ ص۴۰)
’’سب سے مرجح قول ان لوگوں کا قول ہے جنہوں نے کہا ہے کہ اس جگہ امانت سے مراد اس کےتمام معانی ہیں، ان کا تعلق دین سے ہو یا لوگوں کی امانتوں سے۔‘‘
دوسرے صاحب تصنیف مفسرین نے بھی امانت کو وسیع معنی میں لیا ہے اور انھوں نے تمام اقوال کو کسی ایک جامع اصطلاح کے تحت جمع کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ متعدد علماء ومفسرین نے ان اقوال کو ’تکلیف شرعی‘ کی اصطلاح کے تحت جمع کیا ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے حجۃ اللہ البالغہ باب سرالتکلیف میں لکھا ہے کہ غزالی، بیضاوی اور دوسرے علماء ومفسرین نے آگاہ کیا ہے کہ اس آیت میں امانت سے مراد وہ ’عہدۂ تکلیف ‘ ہے جو انسان نے قبول کیا ہے۔ اسی کو قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒ نے اپنی تفسیر مظہری میں ’تکلیفات شرعیہ‘ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ انھوں نے اپنی تفسیر میں ایک ایسی بات بھی لکھی ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت آدم کو جو ’امانت‘ سپرد کی گئی تھی وہ وہی خلافت تھی جو انھیں زمین میں عطا کی گئی۔ وہ لکھتے ہیں
قلت لعل الحکمۃ فی اخراجہ من الجنۃ بعد حمل الامانۃ ان الجنۃ لیست محلا للاداء الامانۃ بل ھی محل للثواب علی أدائھا فاخرج الی الدنیا التی ھی مزرعۃ الاخرۃ لاداء الامانۃ (تفسیر مظہری ج۷ص۳۸۹)
’’میں کہتا ہوں کہ بار امانت اٹھالینے کے بعد جنت سے ان کے اخراج میں شاید حکمت یہ ہے کہ جنت ادائے امانت کی جگہ نہیں ہے بلکہ ادائے امانت پراجر کی جگہ ہے۔ اسی لیے وہ اس دنیا کی طرف بھیج دیے گئے جو ادائے امانت کے لیے آخرت کی کھیتی ہے۔‘‘
آپ نے اپنے خط میں جن کتابوں کی طرف مراجعت کا ذکر کیا ہے ان میں تفسیر مظہری بھی ہے۔ معلوم نہیں یہ عبارت آپ کی نظر سے گزری یا نہیں ؟ آپ کو معلوم ہوگا کہ قاضی ثناء اللہؒ اور تمام صاحب تصنیف مفسرین نے حضرت آدمؑ اور ان کے واسطے سےان کی ذریت کو خلیفۃ اللہ فی الارض تسلیم کیا ہے۔ اب خود غور کریں کہ اس عبارت کا اس کے سوا اور کیا مطلب ہوگا کہ خلافت کا جو منصب ان کو عطاکیاتھا وہ ایسی امانت تھی جو زمین ہی پر ادا ہوسکتی تھی اور اسی لیے انھیں جنت سے زمین پر اتارا گیاتھا۔ اس کے علاوہ صاحب تفسیر مظہری نے خود اپنی رائے یہ ظاہر کی ہے کہ ’امانت ‘ سے مراد اللہ تعالیٰ کی دائمی تجلیات ذاتیہ کو قبول کرنے کی وہ استعداد ہے جو اس نے صرف انسان کی ماہیت میں ودیعت کی ہے اور اسی استعداد نے اسے مستحق خلافت بنایا ہے۔ (ص۳۹۰) ان کی اس رائے سے بھی واضح ہوتا ہے کہ ان کےنزدیک امانت اور خلافت کے درمیان ایسا گہرا ربط موجود ہے کہ ایک کو دوسرے سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔
صدیق حسن خاں مرحوم نے اپنی تفسیر میں قرطبی کے حوالے سے لکھا ہے
قال القرطبی الامانۃ تعم جمیع وظائف الدین علی الصحیح من الاقوال وھو قول الجمھور (فتح البیان ج۷ص۳۲۰)
’’قرطبی نےکہا ہے کہ امانت میں دین کے تمام اعمال داخل ہیں اور یہی جمہور کا قول ہے۔‘‘
علامہ آلوسی لکھتے ہیں
وانا اختارکون الامانۃ کل مایوتمن علیہ ویطلب حفظہ ورعایتہ ولھا افراد کثیر متفاوتۃ فی جلالۃ القدر (روح المعانی ج۲۲ص۹۹)
’’اور میرا مختارقول یہ ہے کہ امانت سے مراد ہروہ چیز ہے جو قابل ودیعت ہو او رجس کی حفاظت ورعایت مطلو ب ہو اور امانت کے کثیر افراد ہیں جو جلالت قدر میں ایک دوسرے سے متفاوت ہیں۔ ‘‘
علامہ کی عبارت سے معلوم ہواکہ یہاں امانت کا لفظ اسم جنس کے طورپر آیا ہے جس کے افراد و اجزا کثیر ہیں۔ او ریہ بات خود قرآن سے معلوم ہوجاتی ہے کیوں کہ دوسری آیات میں صیغہ جمع کے ساتھ ’امانات ‘ کالفظ استعمال کیاگیاہے۔ سورہ النساء میں ادائے امانات کا حکم دیتے ہوئے فرمایاگیا ہے
اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۰ۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ۰ۭ اِنَّ اللہَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِہٖ۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا۵۸ (النساء۵۸)
’’اللّٰہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔ اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقیناً اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے۔‘‘
آیت ۵۸اور اس کے بعد کی دوآیتوں ۵۹ اور ۶۰ کی تفسیر میں مفسرین کرام نے جو کچھ لکھا ہے اس کو پڑھنا اور سمجھنا سورۃ الاحزاب کی آیت اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ الخ کو سمجھنے کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ ہمارا یہ جواب اب بھی طویل ہوچکا ہے۔ اگر میں سورۂ النساء کی ان تین آیتوں کی تشریح شروع کروں تو یہ ایک طویل مقالے کی ضخامت اختیارکرلے گا۔ اس لیے میں صرف آیت ۵۸ کی تفسیر کے چند اقتباسات پراکتفا کررہاہوں۔
امام رازیؒ نے اس آیت کی تفسیر میں آیت اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ کا بھی حوالہ دیاہے۔ان کی طویل عربی عبارتیں نقل کرنے کے بجائے میں ان کا ترجمہ پیش کررہاہوں۔ آپ عربی عبارتیں ان کی تفسیر میں خود پڑھ لیں۔ وہ لکھتے ہیں
’’اس آیت میں اللہ نے مسلمانوں کو جس ادائے امانات کا حکم دیا ہے وہ تمام امور میں ہے۔ عام ازین کہ ان امور کا تعلق مذاہب ودیانات کے باب سے ہو یا دنیا اور معاملات کے باب سے، جان لو کہ انسان کا معاملہ یا تو اپنے رب کے ساتھ ہوتا ہے یا بندوں کے ساتھ یا خود اپنے نفس کے ساتھ۔ ان تینوں اقسام میں امانت کی رعایت ضروری ہے۔ پہلی قسم یعنی رب کے ساتھ امانت کی رعایت مامورات کی تعمیل اور منہیات سے پرہیز میں ہے اور یہ ایک ایسا سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا ہے کہ امانت کی رعایت ہر چیز میں لازم ہے۔ وضو میں، جنابت میں، نماز میں، زکوٰۃ میں اور صوم میں۔ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے کہا ہے کہ اللہ نے انسان کی ’شرم گاہ‘ کے تعلق سے فرمایا ہے کہ یہ امانت ہے جو میں نے تیرے پاس مخفی رکھی ہے لہٰذا اس کی حفاظت کر، الا یہ کہ جہاں اس کے استعمال کا تجھے حق حاصل ہو۔ جان لو کہ یہ ایک وسیع باب ہے۔ زبان کی امانت یہ ہے کہ انسان اسے جھوٹ، غیبت، چغلی، کفر، بدعت، فحش اور اس طرح کی دوسری چیزوں میں استعمال نہ کرے۔ آنکھ کی امانت یہ ہے کہ انسان حرام کی طرف نہ دیکھے۔ کان کی امانت یہ ہے کہ انسان اسے ممنوع چیزوں کے سننے میں نہ لگائے اور یہی رعایت تمام اعضا کے استعمال میں ملحوظ رکھنا ہے۔ دوسری قسم یعنی تمام مخلوق کے ساتھ امانت کی رعایت میں ودیعتوں کی واپسی داخل ہے او راس میں یہ بھی داخل ہے کہ ناپ تول میں کمی نہ کی جائے، لوگوں کے عیوب کا افشا نہ کیا جائے اور اس میں اپنی رعیت کے ساتھ حکام وامرا کاعدل بھی داخل ہے اور عوام کے ساتھ علماء کا انصاف بھی داخل ہے۔ اس طرح کہ وہ انہیں باطل تعصبات پرنہ ابھاریں بلکہ ان کی رہ نمائی ان اعتقادات واعمال کی طرف رکھیں جو دنیا وآخرت دونوں میں ان کے لیے مفید ہوں۔ تیسری قسم یعنی اپنے نفس کے ساتھ امانت کی رعایت یہ ہے کہ انسان ایسی چیزیں اختیار کرے جو دین ودنیا دونوں میں اس کےلیے سب سے زیادہ نفع بخش اور صحیح ودرست ہوں اور شہوت وغضب کی وجہ سے وہ کسی ایسی چیز کی طرف نہ بڑھے جو آخرت میں اس کے لیے مضر ہو۔ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ معلوم ہوا کہ ادائے امانات کے حکم میں یہ تمام چیزیں داخل ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں متعدد مقامات پرامانت کی اہمیت وعظمت واضح فرمائی ہے۔ مثلاً اس نے فرمایا ہے کہ ’’ہم نے امانت آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کی تو انھوں نے اس کےاٹھانے سے انکار کیا اور وہ اس سے ڈرگئے اور انسان نے اسے اٹھالیا۔‘‘ قرآن ہی میں ہے ’’اور کامیاب ہوئے وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرنے والے ہیں۔ ‘‘ اور اس نے فرمایا ’’ اور تم اپنی امانات میں خیانت نہ کرو۔‘‘ اور نبی ﷺ نے فرمایا ’’جس میں امانت نہیں اس میں ایمان نہیں۔ ‘‘ (تفسیر کبیر ج۳ص۳۴۵و۳۴۷)
امام رازی کی اس تفسیر پرغورکرکے دیکھیے کہ انسان کو زمین پرجو خلافت ملی ہے کیااس میں کا کوئی جز ’امانت‘ کی اس تفسیر سے خارج ہے؟ سورۃ النساء کی آیت ۵۸ کے دوسرے ٹکڑے وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ کے تحت تفسیر مظہری میں ہے
والحکم بالعدل ایضا من باب اداء الامانۃ، والاخلال بہ خیانۃ، عن ابی ذرقال قلت یا رسول اللہ استعملنی، قال یا ابا ذر انک ضعیف وانھا امانۃ، وکذا مایذکربعد ذلک من اطاعۃ اللہ والرسول واولی الامر ایضا امانۃ۔
(ج۲ص۳۴۱ و۳۴۲)
’’اور انصاف کے ساتھ حکومت کرنا بھی ادائے امانت کےباب سے ہے اور اس میں خلل ڈالنا خیانت ہے۔ ابوذرؓ سے روایت ہے کہ میں نے کہا یارسول اللہ مجھے کہیں کاعامل بنادیجیے۔ آپ نے فرمایاکہ اے ابوذر تم ضعیف ہو اور امارت وحکومت امانت ہے۔ اسی طرح اللہ، رسول اور اولوالامر کی اطاعت بھی امانت ہے۔‘‘
غورکیجیے جب حکومت اور اللہ، رسول اور اولوالامر کی اطاعت بھی’امانت‘ میں داخل ہے تو پھر امانت سے خلافت مراد لینے کے قول کو جدت طرازی سمجھنا کس قدر سادہ لوحی ہے۔ میراخیال ہے آپ نے بطورخود سمجھ لیا ہے یا آپ کو سمجھادیا گیا ہے کہ مولانا مودودی ایک جدت طراز مفسر ہیں، اس لیے آپ نے زیادہ غوروفکر اور مطالعہ کی ضرورت محسوس نہیں کی اور ان کی تفسیر کو طبع زاد سمجھ بیٹھے۔
اخیرمیں مزیداضافۂ علم کے لیے یہ بھی عرض کروں کہ ’امانت‘ کے تفسیرمیں خلافت کا قول نیا نہیں بلکہ سیکڑوں سال پرانا ہے۔ابوبکربن العربی نے اپنی کتاب احکام القرآن میں انا عرضناالامانۃ کے تحت لکھاہے
المسئلۃ الثانیۃ فی ذکرالامانۃ وفیھا اختلاط کثیرمن القول لبابہ فی عشرۃ اقوال (احکام القرآن۲ص۱۸۶)
’’دوسرمسئلہ امانت کے ذکرمیں ہے اوراس میں کثیراقوال کااختلاط ہے، ان کا خلاصہ دس اقوال ہیں۔ ‘‘
اس کے بعدوہ اقوال نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں
والخامس انھا الخلافۃ۔
’’اورپانچواں قول یہ ہے کہ امانت سے مراد خلافت ہے۔‘‘
قاضی ابن عربی کی وفات ۵۴۲ھ میں ہوئی ہے گویاانھوں نے ۸۴۷سال پہلے اپنی کتاب میں یہ قول نقل کیا ہے۔اس کے معنی یہ ہیں کہ اس سے بھی زیادہ مدت سے ’امانت ‘ کی تفسیر میں ’خلافت‘ کا قول منقول ہوتاچلاآرہاہے۔ تمام اقوال کے اخیرمیں انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ سب اقوال ایک دوسرے سے قریب ہیں۔
مجھے امید ہے کہ اب آپ یہ تسلیم کرلیں گے کہ مولانا مودودی کا قول نہ طبع زاد ہے اور نہ سابق مفسرین کی تفسیروں کے خلاف ہے۔ (جولائی۱۹۶۹ءج۴۳ش۱)