ابوجہل کی بیٹی کو حضرت علیؓ کا پیغامِ نکاح

اسلام میں جب چار شادیوں کی اجازت ہے تو حضرت فاطمہؓ کی زندگی میں جب علی کرم اللّٰہ وجہہ نے دوسری شادی کرنی چاہی تو رسول اﷲﷺ نے آپ ؓ کو کیوں روک دیا؟ابوجہل کی بیٹی کے خانوادۂ اہل بیت میں آجانے سے اگر کوئی خطرہ تھا تو کیا حضرت اُم حبیبہؓ بنت ابی سفیان کے حرم رسالت میں داخل ہونے سے وہی خطرہ نہ تھا؟
جواب

اس واقعے کو امام زین العابدین علی بن حسین ؓ اور ابومُلَیکہ نے حضرت مِسْوَر بن مخرمہ سے روایت کیا ہے، اور اس کی تائید حضرت عبداﷲ بن زبیر کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے۔ نیزابوحنظلہ اور سوید بن غفلہ کی مرسل روایات بھی اس کی مؤید ہیں ۔اما م بخاریؒ نے کتاب فرض الخمس، کتاب فضائل اصحاب النبیؐ اور کتاب النکاح میں ، مسلم نے کتاب فضائل الصحابہ میں ، ابودائود نے کتاب النکاح میں ، ابن ماجہ نے کتاب النکاح میں ، ترمذی نے کتاب المناقب میں اور حاکم نے کتاب معرفۃ الصحابہ میں متعدد سندوں سے ان روایات کو نقل کیا ہے۔
تفصیل اس قصے کی یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب ابوجہل کا خاندان مسلمان ہوگیا تو حضرت علیؓ نے اس کی بیٹی سے(جس کا نام کسی نے جویریہ، کسی نے غورا اور کسی نے جمیلہ بیان کیا ہے) نکاح کرنا چاہا۔لڑکی کے خاندان والوں نے کہا کہ ہم رسول اﷲ ﷺ کی بیٹی پر بیٹی نہ دیں گے جب تک آپؐ سے پوچھ نہ لیں ۔ چنانچہ انھوں نے اس کا ذکر حضورﷺ سے کیا۔ ایک روایت کی رُو سے خود حضرت علیؓ نے بھی اشارتاًکنایتاً حضور ﷺ سے اجازت طلب کی۔ اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ ؓ نے بھی ان باتوں کا چرچا سن لیا اور جاکر اپنے والد ماجد کی خدمت میں عرض کیا کہ ’’آپﷺ کی قوم کے لوگ سمجھتے ہیں کہ آپؐ کوا پنی بیٹیوں کی پروا نہیں ہے۔دیکھیے، یہ علی اب ابوجہل کی بیٹی سے شادی کرنے والے ہیں ۔‘‘ اس پر حضور ﷺ نے ایک خطبے میں فرمایا:
إِنَّ بَنِي هِشَامِ بْنِ الْمُغِيرَةِ اسْتَأْذَنُونِي أَنْ يُنْكِحُوا ابْنَتَهُمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فَلَا آذَنُ لَهُمْ ثُمَّ لَا آذَنُ لَهُمْ ثُمَّ لَا آذَنُ لَهُمْ إِلَّا أَنْ يُحِبَّ ابْنُ أَبِي طَالِبٍ أَنْ يُطَلِّقَ ابْنَتِي وَيَنْكِحَ ابْنَتَهُمْ فَإِنَّمَا ابْنَتِي بَضْعَةٌ مِنِّي يَرِيْبُنِي مَا رَابَهَا وَيُؤْذِينِي مَا آذَاهَا۔({ FR 1967 }) ’’بنی ہشام بن مغیرہ نے مجھ سے اس بات کی اجازت مانگی ہے کہ وہ اپنی بیٹی علی بن ابی طالب کے نکاح میں دیں ۔ میں اس کی اجازت نہیں دیتا،نہیں دیتا، نہیں دیتا، الا یہ کہ ابو طالب کا بیٹا میری لڑکی کو طلاق دے کر ان کی لڑکی سے نکاح کرلے۔میری لڑکی میرا ٹکڑا ہے ۔جو کچھ اسے ناگوار ہوگاوہ مجھے ناگوار ہوگا،اور جو چیز اسے تکلیف دے گی وہ مجھے تکلیف دے گی۔‘‘
وَإِنِّي لَسْتُ أُحَرِّمُ حَلَالًا وَلَا أُحِلُّ حَرَامًا وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَا تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِنْتُ عَدُوِّ اللَّهِ أَبَدًا۔({ FR 1968 }) ’’میں حلال کو حرام اور حرام کوحلال نہیں کرتا، مگر خدا کی قسم، اﷲ کے رسول کی بیٹی اور اﷲ کے رسول کے دشمن کی بیٹی ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتی۔‘‘
(وفی روایۃ) إِنَّ فَاطِمَةَ مِنِّي وَإِنِّي أَتَخَوَّفُ أَنْ تُفْتَنَ فِي دِينِهَا({ FR 1969 }) ’’ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا،فاطمہ مجھ سے ہے اور میں ڈرتا ہوں کہ وہ کہیں اپنے دین کے معاملے میں فتنے میں نہ پڑ جائے۔‘‘
اس واقعے پر آدمی کو یہ شبہہ لاحق ہوسکتا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے خود بھی بہت سی شادیاں کیں اور عام لوگوں کو بھی چار تک بیویاں بیک وقت رکھنے کی اجازت دی۔ مگر خود اپنی بیٹی پر ایک سوکن کا آنا بھی آپﷺ نے گوارا نہ کیا۔ سوکن کے آنے سے جو اذیت آپﷺ کی بیٹی کو،اور بیٹی کی خاطرخود آپﷺ کو ہوسکتی تھی،وہی اذیت دوسری عورتوں اوران کے ماں باپ کو بھی تو لاحق ہوتی ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ آپؐ نے اپنے حق میں تو اسے برداشت نہ کیا اور دوسروں کے حق میں اسے جائز رکھا۔
بظاہر یہ ایک سخت اعتراض ہے اور معاملے کی سادہ صورت دیکھ کر آدمی بڑی اُلجھن میں پڑ جاتا ہے۔ لیکن تھوڑا سا غور کیا جائے تو اس کی حقیقت سمجھ میں آجاتی ہے۔ یہ بات ناقابل انکار ہے کہ ایک عورت کا شوہر اگر دوسری بیوی لے آئے تو اس عورت کو فطرتاًیہ ناگوار ہوتا ہے اور اس کے ماں باپ ، بھائی بہن اور دوسرے رشتہ داروں کو بھی اس سے اذیت ہوتی ہے۔شریعت نے ایک سے زیادہ نکاحوں کی اجازت اس مفروضے پر نہیں دی ہے کہ یہ چیز اس عورت کو اور اس کے رشتے داروں کو ناگوار نہیں ہوتی جس پر سوکن آئے۔ بلکہ اس امر واقعہ کو جانتے ہوئے شریعت نے اسے اس لیے حلال کیا ہے کہ دوسری اہم تراور معاشرتی مصلحتیں اس کو جائز کرنے کی متقاضی ہیں ۔ شریعت یہ بھی جانتی ہے کہ سوکنیں بہرحال سہیلیاں اور شوہر شریک بہنیں بن کر نہیں رہ سکتیں ۔ ان کے درمیان کچھ نہ کچھ کش مکش اور چپقلش ضرور ہوگی اور خانگی زندگی تلخیوں سے محفوظ نہ رہ سکے گی۔ لیکن یہ انفرادی قباحتیں اس عظیم تر اجتماعی قباحت سے کم تر ہیں جو یک زوجی کو بطور قانون لازم کرنے سے پورے معاشرے میں پیدا ہوتی ہے۔اسی وجہ سے شریعت نے تعدد ازواج کو حلال قرار دیا ہے۔
اب دیکھیے کہ رسول اﷲ ﷺ کے معاملے میں کیا پیچیدگی واقع ہوتی ہے۔شرعاً آپﷺ کی بیٹی پر بھی سوکن لانا آپؐ کے داماد کے لیے حلال تھا۔ اسی لیے حضرت علیؓ نے ایسا کرنے کا ارادہ کیا۔ اور اسی وجہ سے حضورﷺ نے بھی یہ نہیں فرمایا کہ ان کے لیے یہ فعل حرام ہے۔ بلکہ آپﷺ نے خود تصریح فرمائی کہ میں حلال کو حرام نہیں کرتا۔ لیکن یہاں حضورﷺ کی ایک ہی شخصیت میں دو مختلف حیثیتیں جمع تھیں ۔ ایک حیثیت میں آپؐ انسان تھے اور فطرتاً یہ ممکن نہ تھا کہ آپؐ کی صاحب زادی کے گھر میں سوکن آنے سے جو تلخی پیدا ہو، اس کا تھوڑا یا بہت اثر آپؐ کی طبیعت پر نہ پڑے۔ دوسری حیثیت میں آپؐ اﷲ کے رسول تھے، اور رسول کی حیثیت سے آپؐ کا مقام یہ تھا کہ آپؐ کے ساتھ اگر کسی شخص کے تعلقات خراب ہوجائیں اور کوئی شخص آپ کے لیے موجب اذیت ہو جائے تو اس کے دین وایمان کی بھی خیر نہ تھی۔ اسی وجہ سے حضور ﷺ نے حضرت علی ؓ کو بھی اور بنی ہشام بن مغیرہ کو بھی اس کام سے روک دیا۔کیوں کہ اگرچہ شرعاً یہ حلال تھا مگر اس کے کرنے سے یہ اندیشہ تھا کہ یہ چیز حضرت علی ؓ اور ان کی دوسری بیوی اور اس کے خاندان والوں کے ایمان اور ان کی عاقبت کو خطرے میں ڈال دے گی۔
ایک اوربات جس کا حضورﷺ نے اپنے خطبے میں ذکر فرمایا، وہ یہ تھی کہ بنی ہشام بن مغیرہ اسلام اور رسول اﷲﷺ کے بدترین دشمن رہ چکے تھے اور فتح مکہ کے بعد تازہ تازہ مسلمان ہوئے تھے۔ خود اس لڑکی کے باپ ابوجہل کے متعلق تو سب کو معلوم ہے کہ حضورﷺ کی دشمنی میں وہ تمام کفار سے بازی لے گیا تھا۔ یہ بھی واقعہ ہے کہ جنگ بدر میں وہ مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا اور اس کا خاندان برسوں اس کے جذبۂ انتقام میں تڑپتا رہا۔ اب اگرچہ یہ لو گ اسلام قبول کرچکے تھے، لیکن یہ تحقیق ہوناابھی باقی تھا کہ یہ قبول اسلام واقعی پورے اخلاص اور قلوب کی مکمل تبدیلی کا ثمرہ ہے یا محض شکست کا نتیجہ۔ اس حالت میں اس خاندان کی لڑکی، اور وہ بھی خاص ابوجہل کی بیٹی کا اس گھر میں سوکن بن کر پہنچ جانا، جہاں رسول اﷲﷺ کی صاحب زادی ملکۂ بیت تھیں ،بڑے فتنوں کا سبب بن سکتا تھا۔ ان لوگوں کی تالیف قلب تو کی جاسکتی تھی اور کی بھی گئی، لیکن اسلام کے ساتھ ان کے تعلق کا حال جب تک ٹھیک ٹھیک معلوم نہ ہوجائے،انھیں عین خاندان رسالت میں گھسا لانا اور خود رسول اکرمﷺ کی صاحب زادی کے بالمقابل لاکھڑا کرنا سخت نامناسب اور پُرخطر تھا۔ اس وجہ سے بھی حضور ﷺ نے اس رشتے کو ناپسند کیا اور علی الاعلان کہا کہ خدا کے رسول کی بیٹی اور خدا کے دشمن کی بیٹی ایک گھر میں جمع نہیں ہو سکتیں ۔ نیز اس بات کی طرف بھی آپﷺ نے اشارہ فرمادیا کہ اس سے فاطمہؓ کے فتنے میں پڑنے کا اندیشہ ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک شخص کو اپنے بیاہ شادی کے معاملے میں ( اگرچہ وہ بجاے خود حلال ہی سہی ) ایسی آزادی نہیں دی جاسکتی جس سے ایک پوری ملت کے لیے فتنہ وشر کا خطرہ پیدا ہوجائے۔
بے شک یہاں یہ اعتراض اٹھ سکتا ہے کہ ابوجہل کے خاندان سے ابوسفیان کا خاندان اسلام کی عداوت میں کچھ کم نہ تھا، پھر اگر ابوجہل کے خاندان کی لڑکی کا خانوادۂ رسالت میں آنا موجب فتنہ ہوسکتاتھا تو ابو سفیان کی صاحب زادی(حضرت ام حبیبہؓ) کا خود نبیؐ کی ازواج مطہرات میں شامل ہوجانا کیوں خطرے سے خالی تھا؟ لیکن دونوں کے حالات کا فرق نگاہ میں ہو تو یہ اعتراض آپ سے آپ ختم ہوجاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ابو جہل کی لڑکی اور ام المؤمنین حضرت ام حبیبہؓ کا سرے سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ابوجہل کی لڑکی اور اس کے چچا اور بھائی،سب کے سب فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تھے۔ ان کے بارے میں یہ امتحان ہونا ابھی باقی تھا کہ ان کا ایمان کس حد تک اخلاص پر مبنی ہے اور کہاں تک اس میں شکست خوردگی کا اثر ہے۔ بخلاف اس کے حضرت ام حبیبہ ؓ اس بڑے سے بڑے امتحان سے گزر کر، جو اکابر صحابہ میں سے بھی کم ہی کسی کو پیش آیا تھا، اپنے کمال اخلاص اور اپنی صداقت ایمانی کا پورا ثبوت دے چکی تھیں ۔ انھوں نے دین کی خاطر وہ قربانیاں کی تھیں جن کی نظیر مشکل ہی سے کہیں اور نظر آسکتی ہے۔
ذرا غور کیجیے، ابوسفیان کی بیٹی،ہند بنت عتبہ(مشہور ہند جگر خوار) کی لخت جگر، جس کی پھوپھی وہ عورت تھی جسے قرآن میں حما لۃ الحطب کاخطاب دیا گیا ہے، جس کا نانا عتبہ بن ربیعہ نبیﷺ کا بدترین دشمن تھا۔ اس خاندان سے اور اس ماحول سے نکل کر وہ حضرت عمرؓ اور حضرت حمزہؓ سے بھی پہلے ایمان لاتی ہیں ، اپنے شوہر کو مسلمان کرتی ہیں ، خاندان والوں کے ظلم وستم سے تنگ آکر مہاجرین حبشہ کے ساتھ ہجرت کرجاتی ہیں ۔ حبش جاکر شوہر عیسائی ہوجاتا ہے اور وہ دین کی خاطر اس کو بھی چھوڑ دیتی ہیں ۔ غریب الوطنی کی حالت میں تن تنہا ایک چھوٹی سی بچی کے ساتھ رہ جاتی ہیں اور ان کے عزم ایمانی میں ذرّہ برابر تزلزل نہیں آتا۔ کئی برس اس حالت میں جب گزر جاتے ہیں اور ایک بے سہارا خاتون دیار غیر میں ہر طرح کے مصائب جھیل کر یہ ثابت کردیتی ہے کہ دین کو جس پائے کا خلوص، جس مرتبے کی سیرت اور جس درجے کا کردار مطلوب ہے، وہ سب یہاں موجود ہے، تب نبی ﷺ کی نگاہ انتخاب ان پر پڑتی ہے اور آپ حبش ہی میں ان کو نکاح کا پیغام بھیجتے ہیں ۔ غزوۂ خیبر کے بعد وہ حبش سے واپس آ کر حرم نبوی میں داخل ہوتی ہیں ۔ اس کے تھوڑی ہی مدت بعد قریش صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں اور ان کو اندیشہ ہوتا ہے کہ نبیﷺ اب مکے پر چڑھائی کردیں گے۔ اس موقع پر ابو سفیان صلح کی بات چیت کے لیے مدینے آتا ہے اور اس امید پر بیٹی کے ہاں پہنچتا ہے کہ اس کے ذریعے سے صلح کی شرائط طے کرنے میں سہولت ہو گی۔ برسوں کی جدائی کے بعد پہلی مرتبہ باپ سے بیٹی کو ملنے کا موقع ملتا ہے، مگر جب وہ رسول اﷲﷺکے فرش پر بیٹھنے کاارادہ کرتا ہے تو بیٹی فوراًیہ کہہ کر فرش اٹھا لیتی ہے کہ رسول ؐ کے فرش پر ایک دشمن اسلام نہیں بیٹھ سکتا۔ ایسی خاتون کا خانوادۂ رسالت میں داخل ہونا تو ہیرے کا ہار میں ٹھیک اپنی جگہ پالینا تھا۔ اس سے کسی فتنے کے رونماہونے کا کوئی بعید ترین امکان کیا، وہم بھی نہ ہوسکتا تھا۔ البتہ اس لڑکی کا اس خاندان میں آنا ضرور فتنے کے امکانات اپنے اندر رکھتا تھا جسے اور جس کے خاندان کو صرف فتح نے اسلام میں داخل کیا تھا اور اسلام میں آئے ہوئے جس کو ابھی صرف چند مہینے ہی ہوئے تھے۔ اسی کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوسکتا تھا کہ اسلام اور نبیؐ کی عداوت کے اثرات سے اس کا اور اس کے خاندان والوں کا دل پوری طرح پا ک ہوا ہے یا نہیں ۔ ( ترجمان القرآن ،نومبر ۱۹۵۸ء)