جواب
اجماع کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہے۔یہاں اس کے تما م پہلوئوں پر بحث کرنا مشکل ہے۔ مختصراً یوں سمجھیے کہ اجماع سے مراد اُمت کا متفقہ فیصلہ ہے، اور یہ متفقہ فیصلہ لامحالہ دو ہی قسم کے اُمور سے متعلق ہوسکتا ہے ۔ایک قسم کے اُمور وہ جو احکام شرعی میں سے ہوں ۔دوسری قسم کے اُمور وہ جو دنیوی تدابیر کے قبیل سے ہوں ۔پہلی قسم کے اُمور میں سے کسی امر میں اگر اُمت متفق ہو کر کسی حکمِ مخصوص کی تشریح کرے اور وہ تشریح کسی وقتی ضرورت یا مصلحت کو پیش نظر رکھ کر نہ کی گئی ہو، بلکہ اُصولاً شارع کا منشا یا سنت کا طریقہ بالا تفاق متعین کیا گیا ہو، تو ایسا اجماع یقیناً حجت ہے اور ہمیشہ کے لیے حجت ہے۔ اور اگر کسی مصلحتِ وقتی کو ملحوظ رکھ کر کسی حکم کی تشریح کی گئی ہو تو ایسے اجماع کی پابندی اس وقت تک اُمت پر لازم ہوگی جس وقت تک وہ مصلحت باقی ہے۔ حالات بدل جانے کے بعد اس کی پابندی لازم نہیں رہے گی۔ بخلاف اس کے اگر کوئی اجماع کسی حکم شرعی کی تشریح کے متعلق نہ ہو، بلکہ کسی تدبیر دنیوی کے متعلق اُمت نے متفق ہوکر طے کرلیا ہو کہ اس طرح عمل کیا جائے گا، تو اگر اُصول شریعت میں اس طرزِ عمل کے لیے کوئی گنجائش موجود ہو تو ایسا اجماع واجب العمل ہوسکتا ہے ورنہ نہیں ۔ نیز یہ کہ ایسا اجماع کبھی دائمی اور ابدی وجوب کا مرتبہ حاصل نہیں کر سکتا۔ عین ممکن ہے کہ ایک زمانے کے مسلمان یا ایک ملک یا ایک قوم کے مسلمان کسی تدبیر یا کسی کام پر اتفاق کریں اور دوسرے زمانے میں اسی قوم یا اسی ملک کے لوگ کسی اور امر پر اتفاق کرلیں ۔ یہ ملکی اور قومی ا ور زمانی اجماع صرف ایک خاص زمانے اور خاص ملک یا قوم کے مسلمانوں ہی کے لیے واجب العمل ہوسکتے ہیں ۔بعد کے زمانے والوں یا دوسرے ممالک کے مسلمانوں کو اگر اِ س میں تغیر وتبدل کی ضرورت محسوس ہو تو یہ دعویٰ کرنا صحیح نہ ہو گا کہ چوں کہ پہلے فلاں خاص امر پر اجماع ہوچکا ہے یا فلاں ملک میں اس پر اتفاق ہوچکا ہے اس لیے اب اس کے بارے میں کلام نہیں کیا جا سکتا۔ (ترجمان القرآن ، جولائی،اکتوبر ۱۹۴۴ء)