احادیث اور اُسوئہ حسنہ

از راہِ کرم منکرین حجیت حدیث کے درج ذیل شبہے کا جواب دے کر راہ نمائی فرمائیں : اس میں کلام نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ ہمارے لیے عملی طور پر سبق آموز ہے۔ قرون اولیٰ میں جب تک کہ احادیث کا تسلی بخش اہتمام نہ ہوسکا، قریتین عظیم کے باہر مسلمان قرآن مجید ہی سے اسوۂ نبی کا اقتباس کرتے تھے۔ اخلاق رسول اکرم ﷺ کے متعلق حضرت عائشہ ؅ سے پوچھا گیا اور آپ نے جواباً فرمایا: کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰنُ۔({ FR 2021 }) غرض قرآن پاک سے اسلامی اخلاق اور زندگی کے معلوم کرنے کے لیے ذخیرۂ وافر میسر ہے۔ فی زمانہ بھی بہت تھوڑے ہیں جن کو پیغمبر اسلام علیہ الصلاۃو التحیات کی سوانح بالتفصیل و الصواب معلوم ہوں ۔ مگر متبعین شریعت عموماً اصول و ارکان سے واقف ہیں اور یہی مقصود بالذات تھا۔
جواب

قرآن پاک اور حدیث نبوی کے تعلق کو ٹھیک ٹھیک نہ سمجھنے سے ] یہ[ سوال پیدا ہوا ہے۔ قرآن پاک میں سب سے زیادہ زور ایمان پر دیا گیا ہے، اور ایمان ہی کی تفصیلات سے سارا قرآن بھرا پڑا ہے۔ اس کے لیے تو ہمیں قرآن سے باہر جانے کی ضرورت ہی نہیں ، اور حدیث میں اس سے زیادہ کوئی چیز بھی نہیں ہے۔ اس کے بعد اخلاقی تعلیمات ہیں ۔ قرآن میں اصول اخلاق قریب قریب سب کے سب بیان کر دیے گئے ہیں مگر ظاہر ہے کہ اخلاق کا تعلق لفظی بیان سے اتنا نہیں ہے جتنا عملی نمونے سے ہے۔ اس لیے خداوند تعالیٰ نے اپنے رسول کو اخلاق کا مجسم نمونہ بنا کر پیش فرمایا۔ اور اس کے رسولﷺ نے اپنے عمل اور اپنے مواعظ اور اپنی تعلیم حکمت اور عملی تربیت و تزکیہ نفوس سے ان تمام اصول اخلاق کی قولی و عملی تشریح فرمادی جو قرآن مجید میں بیان ہوئے۔ پس جو شخص اس اُسوۂ نبوی کو چھوڑ کر کہتا ہے کہ اس باب میں ہمارے لیے صرف قرآن کافی ہے وہ اپنے آپ کو بہت بڑی نعمت سے محروم کرتا ہے۔ بلکہ درحقیقت وہ حق تعالیٰ کے اس فعل کو عبث سمجھتا ہے کہ اس نے تنزیل کتاب کے ساتھ رسول بھی مبعوث فرمایا اور یہ کہہ کر مبعوث فرمایا کہ ہمارا رسول نہ صرف تم کو ہماری آیات سنائے گا بلکہ تمھارا تزکیۂ نفس بھی کرے گا۔ تم کو کتاب و حکمت کی تعلیم بھی دے گا اور اس کی زندگی میں تمھارے لیے اُسوۂ حسنہ بھی ہوگا۔
اب رہ گئے احکام تو قرآن مجید میں ان کے متعلق زیادہ تر کلی قوانین بیان کیے گئے ہیں اور بیشتر امور میں تفصیلات کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ نبی ﷺ نے عملاً ان احکام کو زندگی کے معاملات میں جاری فرمایا اور اپنے عمل اور قول کی تفصیلات ظاہر فرمائیں ۔ ان تفصیلات میں سے بعض ایسی ہیں جن میں ہمارے اجتہاد کو کوئی دخل نہیں ۔ ہم پر لازم ہے کہ جیسا عمل حضورؐ سے ثابت ہے اسی کی پیروی کریں ۔ مثلاً عبادات کے احکام اور بعض تفصیلات ایسی ہیں کہ ان سے ہم اصول اخذ کرکے اپنے اجتہاد سے فروع مستنبط کرسکتے ہیں ۔ مثلاً عہد نبویؐ کے قوانین مدنی۔ اور بعض تفصیلات ایسی ہیں کہ ان سے ہم کو اسلام کی اسپرٹ معلوم ہوتی ہے۔ اگر یہ اسپرٹ ہمارے قلب و روح میں جاری ہو جائے تو ہم اس قابل ہو جائیں گے کہ زندگی کے جملہ معاملات اور مسائل پر ایک مسلمان کی سی ذہنیت اور ایک مسلمان کی سی بصیرت کے ساتھ غور کریں ، دنیا کے علمی مسائل کو اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھیں ، اور ان کے متعلق ویسی ہی راے قائم کریں جیسی ایک مسلمان کو کرنی چاہیے۔ اس سے واضح ہوگیا کہ پورا اور پکا مسلمان بننے کے لیے قرآن مجید کے ساتھ حدیث کا علم کس قدر ضروری ہے۔ اس کے جواب میں اگر یہ کہا جائے کہ ایک عام مسلمان حدیث کے بغیر بھی ایک مسلمان کی سی زندگی بسر کرسکتا ہے، تو میں کہوں گا یہ علم حدیث کی ضرورت نہ ہونے پر کوئی دلیل نہیں ہے اور اگر یہ دلیل ہے تو یہی دلیل قرآن کے علم کی ضرورت نہ ہونے پر بھی قائم کی جاسکتی ہے، کیونکہ ایک عامی مسلمان قرآن کے علم سے بھی بہت کم بہرہ ور ہوتا ہے۔ اور پھر بھی اپنی زندگی میں احکام شریعت کا اتباع کرتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عامی لوگ نہ کبھی عہد نبوی میں معیاری مسلمان تھے اور نہ اس کے بعد کبھی ان کو معیاری مسلمان ہونے کا فخر حاصل ہوا۔ معیاری مسلمان تو دراصل اس زمانے میں بھی وہی تھے اور اب بھی وہی ہیں جو قرآن اور حدیث کے علوم پر نظر رکھتے ہوں اور جن کی رگ و پے میں قرآن کا علم اور نبی اکرمﷺ کی حیات طیبہ کا نمونہ سرایت کر گیا ہو۔ باقی رہے عوام تو وہ اس وقت بھی ان معیاری مسلمانوں کے پیرو تھے، اور آج بھی ہیں ۔ عہد نبوی میں جن صحابہ نے جتنا زیادہ حضور ﷺ سے صحبت اور تعلیم کا فیض اٹھایا وہ اتنے ہی زیادہ معیاری مسلمان سمجھے گئے۔ اور ان کے مقابلے میں کبھی ان لوگوں کو بہ اعتبار علم یا بہ اعتبار عمل ترجیح نہیں دی گئی، جنھوں نے آں حضرتﷺ سے تعلیم اور صحبت کا فیض نہ اٹھایا تھا۔ بلاشبہہ مسلمان دونوں تھے مگر دونوں کے مراتب کا فرق کبھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ (ترجمان القرآن، جولائی ،۱۹۳۴ئ)