جواب
بادی النظر میں یہ بات بالکل صحیح معلوم ہوتی ہے کہ ایسی فعلی اور قولی احادیث کو تواتر کا درجہ حاصل ہونا چاہیے جن کو دیکھنے اور سننے والے بکثرت ہوں ‘ ان میں اختلاف نہ پایا جانا چاہیے۔ لیکن ہر شخص بہ اَدنیٰ تأمل یہ سمجھ سکتا ہے کہ جس واقعہ کو بکثرت لوگوں نے دیکھا ہو یا جس تقریر کو بکثرت لوگوں نے سنا ہو اس کو نقل کرنے یا اس کے مطابق عمل کرنے میں سب لوگ اس قدر متفق نہیں ہوسکتے کہ ان کے درمیان یک سر مُوفرق نہ پایا جائے۔ اس واقعہ یا اس تقریر کے اہم اجزا میں تو سب کے درمیان ضرور اتفاق ہوگا مگر فرعی امور میں بہت کچھ اختلاف بھی پایا جائے گا اور یہ اختلاف ہرگز اس بات کی دلیل نہ ہوگا کہ وہ واقعہ سرے سے پیش ہی نہیں آیا۔
مثال کے طور پر آج میں ایک تقریر کرتا ہوں اور کئی ہزار آدمی اس کو سنتے ہیں ۔ جلسہ ختم ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی مہینوں اور برسوں بعد نہیں بلکہ چند ہی گھنٹے بعد، لوگوں سے پوچھ لیجیے کہ مقرر نے کیا کہا؟ آپ دیکھیں گے کہ تقریر کا مضمون نقل کرنے میں سب کا بیان یکساں نہ ہوگا۔ کوئی کسی ٹکڑے کو بیان کرے گا کوئی کسی ٹکڑے کو، کوئی کسی جملے کو لفظ بلفظ نقل کرے گا، کوئی اس مفہوم کو جو اس کی سمجھ میں آیا ہے اپنے الفاظ میں بیان کر دے گا، کوئی زیادہ فہیم آدمی ہوگا اور تقریر کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر اس کا صحیح مُلخّص بیان کردے گا۔ کسی کی سمجھ زیادہ اچھی نہ ہوگی اور وہ مطلب کو اپنے الفاظ میں اچھی طرح ادا نہ کرسکے گا۔ کسی کا حافظہ اچھا ہوگا اور وہ تقریر کے اکثر حصے لفظ بلفظ نقل کر دے گا۔ کسی کی یاد اچھی نہ ہوگی اور وہ نقل و روایت میں غلطیاں کرے گا۔ اگر اب کوئی شخص اس اختلاف کو دیکھ کر یہ کہہ دے کہ میں نے سرے سے کوئی تقریر ہی نہیں کی یا جو تقریر کی تھی وہ از سر تا پا غلط نقل کی گئی تو یہ صحیح نہ ہوگا۔ بخلاف اس کے اگر تقریر کے متعلق تمام اخبار آحادکو جمع کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس امر میں سب کے درمیان اتفاق ہے کہ میں نے تقریر کی، فلاں جگہ کی، فلاں وقت کی، بہت سے آدمی موجود تھے، اور تقریر کا موضوع یہ تھا۔ پھر تقریر کے جن جن حصوں کے متعلق زیادہ سے زیادہ اتفاق لفظاً یا معنا ً پایا جائے گا، وہ زیادہ مستند سمجھے جائیں گے اور ان سب کو ملا کر تقریر کا ایک مستند مجموعہ تیارکرلیا جائے گا۔ اور جن حصوں کے بیان کرنے میں ہر راوی منفرد ہوگا وہ نسبتاً کم معتبر ہوں گے مگر ان کو موضوع اور غلط کہنا جائز نہ ہوگا، تاوقتیکہ وہ تقریر کی پوری اسپرٹ کے خلاف نہ ہوں ، یا کوئی اور ایسی بات ان میں نہ ہو جس کی وجہ سے ان کی صحت مشتبہ ہو جائے، مثلاً تقریر کے معتبر حصوں سے مختلف ہونا یا مقرر کے خیالات اور انداز بیان اور افتادِ مزاج کے متعلق جو صحیح معلومات لوگوں کے پاس پہلے سے موجود ہیں ان کے خلاف ہونا۔
یہی حال احادیث فعلی کا بھی ہے۔ آپ نے نماز کی مثال پیش فرمائی ہے۔ میں بھی اسی مثال کو سامنے رکھ کر جواب عرض کرتا ہوں ۔ نماز کے متعلق تواترقولی و عملی سے یہ بات متفقہ طور پر ثابت ہے کہ حضور ﷺ پانچ وقت کی نماز فرض ادا فرماتے تھے، نماز جماعت کے ساتھ پڑھی جاتی تھی، مقتدی آپؐ کے پیچھے صف بستہ کھڑے ہوتے اور آپ کی حرکات و سکنات کی پیروی کرتے تھے۔ آپﷺ قبلہ کی جانب رُخ فرمایا کرتے۔ تکبیر تحریمہ کے ساتھ نماز میں داخل ہوتے، قیام، رکوع، سجود اور قعود سے نماز مرکب ہوتی تھی، ہر رکن نماز کی فلاں فلاں ہیئتیں تھیں ۔ غرض نماز کے جتنے اہم اجزاے ترکیبی ہیں ان سب میں تمام زبانی روایات متفق ہیں اور عہد رسالت سے آج تک ان کے مطابق عمل بھی ہو رہا ہے۔ اب رہے جزئیات مثلاً رفع یدین اور وضع یدین وغیرہ تو ان کا اختلاف یہ معنی نہیں رکھتا کہ نماز کے متعلق تمام روایات غلط ہیں بلکہ دراصل یہ اختلاف اس امر کا پتہ دیتا ہے کہ مختلف لوگوں نے مختلف اوقات میں حضور ﷺ کا عمل مختلف دیکھا۔ چونکہ یہ امورِ نماز میں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے، اور ان میں سے کسی کے کرنے یا نہ کرنے سے نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا، اور حضورﷺ خود صاحب شریعت تھے اس لیے آپ جس وقت جیسا چاہتے تھے عمل فرماتے تھے۔ لیکن حضورﷺکے سوا کوئی اور شخص چونکہ صاحب شریعت نہ تھا اور اس کاکام اتباع تھا نہ کہ تشریع‘ اس لیے ہر دیکھنے والے نے آپ کو جیسا فعل کرتے دیکھا اسی کی پیروی کی اور اس کی پیروی کے لیے لوگوں سے کہا۔ بعد کے ائمہ نے روایات کی چھان بین کرکے ہر جزئیہ کے متعلق یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ زیادہ صحیح اور مستند روایات کون سی ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس تحقیق کے نتائج میں اختلاف ہونا ممکن تھا، اور وہ ہوا۔ کسی نے کسی روایت کو زیادہ مستند سمجھا، اور کسی کو اس کے خلاف روایت پر اطمینان حاصل ہوا۔ مگر یہ اختلاف کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اور یہ ہرگز اس امرکی دلیل نہیں ہے کہ حضور ﷺ کے طریقۂ اداے نماز کے متعلق سرے سے کوئی قولی و فعلی تواتر ہی نہیں پایا جاتا۔ (ترجمان القرآن، جولائی ،۱۹۳۴ئ)