احرام باندھ کر حج سے پہلے مکہ پہنچ کر حلال ہونا

حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے ذی الحجہ کی پانچویں تاریخ کو احرام توڑ کر خوب جماع کیا اورپانچویں دن کے بعد جب ہم عرفہ کے لیے روانہ ہوئے تو تَقْطُرُ مَذَاکِیْرُنَا الْمَنیِّ۔ اس حدیث کی وضاحت فرما کر میری پریشانی رفع فرمادیں ۔
جواب

حضرت جابر ؓکی یہ روایت[صحیح] مسلم، کتاب الحج، بیان الإ حرام میں ہے، جس میں قواعد احرام سے تعلق رکھنے والی روایات جمع کی گئی ہیں ۔اس سلسلے میں امام مسلم نے حضرت جابرؓ کی بھی متعدد روایات نقل کی ہیں ، جن میں وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ محض حج کی نیت کرکے مدینہ سے نکلے تھے۔جب4 ذی الحجہ کو نبی ﷺ مکہ پہنچے تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے جو لوگ ہدی نہیں لاے ہیں ،وہ احرام کھول دیں اور اپنی بیویوں کے پاس جائیں ۔یہ آپﷺ کا حکم نہ تھا بلکہ مقصود یہ بتانا تھا کہ احرام کھول کر تم ایسا کرسکتے ہو۔چنانچہ ہم نے طواف کعبہ اور سعی بین الصفا والمروہ کرکے احرام کھول دیے اور اپنی بیویوں کے پاس گئے۔اس موقع پر جو لوگ احرام کھولتے ہوئے جھجک رہے تھے،انھیں نبی ﷺ نے سمجھایا کہ میں تم سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا ہوں ۔اگر میں اپنے ساتھ ہدی نہ لایا ہوتا تو میں بھی تمھارے ساتھ ہی احرام کھول دیتا۔اس پر وہ مطمئن ہوگئے اور سب نے ارشاد کی تعمیل کی۔({ FR 2062 })
یہ واقعات حضرت جابرؓ نے جس غرض کے لیے بیا ن کیے تھے وہ یہ تھی کہ بعد میں بھی بہت سے لوگوں کے دلوں میں یہ شک باقی رہ گیا تھا کہ جو شخص احرام باندھ کر حج سے پہلے مکے پہنچا ہو،وہ آیا طواف وسعی کرنے کے بعد حلال ہوسکتا ہے یا نہیں ،اور آیا اس کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ حج کا زمانہ آنے پر حرم ہی سے احرام کا آغاز کرے۔اسی شک کو دُور کرنے کے لیے حضرت جابرؓ نے یہ حدیث بیان کی تھی۔ اس حدیث کے اصل الفاظ میں یہ بات کہیں منقول نہیں ہے کہ ہم نے خوب جماع کیا اور جب ہم عرفہ کے لیے روانہ ہوئے تو تَقْطُرُ مَذَا کِیْرُنَا الْمَنِیّبلکہ وہاں توصحابہ کرامؓ کا یہ قول بطور استفہام و استعجاب مذکور ہے: ’’کیا ہمیں عورتوں کے پاس جانے اور پھر عرفہ کے لیے روانہ ہونے کا حکم ہے درآں حالے کہ تَقْطُرُ مَذَاکِیْرُنَا ؟
(ترجمان القرآن ، اکتوبر ونومبر۱۹۵۲ء)