احکامِ شریعت کی پابندی پر برہمی

ہمارے ہاں کے ایک نوجوان رکنِ جماعت اپنے بڑے بھائی کی زیر سرپرستی تجارت کررہے ہیں ۔ لین دین میں احکامِ شریعت کی پابندی اور وقت پر نماز پڑھنے کے لیے چلے جانے کی بِنا پر ان کے بڑے بھائی سخت برہم ہیں اور ان پر سختی کررہے ہیں ۔اب تک ان کے کئی خطوط میرے نام آچکے ہیں جن میں انھوں نے لکھا ہے کہ’’تیری(یعنی راقم الحروف کی) وجہ سے میرا بھائی خراب ہوگیا ہے،اس پردیوانگی طاری ہے، کاروبار میں اسے کوئی دل چسپی نہیں رہی، رات دن تیرا وظیفہ پڑھتا ہے،تو شیطان ہے، انسان کی شکل میں ابلیس ہے،ماں باپ اور اولاد میں اور بھائیوں میں جدائی ڈالتا ہے،میرے بھائی سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھ،اس کے نام نہ خط لکھ نہ سہ ماہی اجتماع میں شرکت کی دعوت دے، بلکہ اس کو جماعت سے خارج کردے ورنہ…!‘‘ اِ س سلسلے میں مناسب ہدایات سے سرفراز کیجیے۔
جواب

جہاں خاندان کے لوگ جاہلیت میں مبتلا ہوں اور راہِ راست پر چلنے میں اپنے بھائی بندوں کی مزاحمت کرتے ہوں ،وہاں تو فی الواقع جدائی ڈالنا ہی ہمارا کام ہے۔ایسے اعزّہ واقربا اور دوستوں سے اہلِ ایمان کو ملانا نہیں بلکہ توڑنا اور کاٹنا ہی ہمارے پیشِ نظر ہے۔ لہٰذاجو الزام ہمارے رفیق کے بھائی نے آپ پر لگایا ہے ،اس کی تردید کی ضرورت نہیں بلکہ صاف صاف اعتراف کی ضرورت ہے اور بہت نرمی کے ساتھ ان کو اس بات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر وہ اس جدائی کو میل اور موافقت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو خدا پرستی اور دین داری میں مزاحم ہونے کے بجاے مددگار اور ساتھی بننے کی کوشش کریں ، ورنہ ہم اور ہمارا رفیق اپنے طرزِ عمل پر قائم رہیں گے اور آپ کو اختیار ہے کہ جو سلوک آپ کا نفس ہمارے ساتھ کرنا چاہتا ہے وہ کرے۔
البتہ یہ خیال رکھیے کہ آپ کی طرف سے کوئی بات ضد یا اشتعال دلانے والی نہ ہو،بلکہ صبر وتحمل کے ساتھ اس شخص کے نفس کی اصلاح کرنے کی کوشش کیجیے جس کو جاہلیت کے غلبے نے اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ وہ اس آیت کا مصداق بن گیا : اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يَنْہٰىo عَبْدًا اِذَا صَلّٰى ( العلق:۹،۱۰ ) ’’تم نے دیکھا اُس شخص کو جوایک بندے کو منع کرتا ہے۔ جب کہ وہ نماز پڑھتا ہو؟‘‘
درحقیقت یہ دیکھ کر بڑ ادُکھ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے گروہ میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جن کو نماز کی پابندی تک گوارا نہیں ہے۔خود پابندی کرنا تو درکنار، دوسرااگر ایسا کرتا ہے تو اس پر بھی بگڑتے ہیں ۔ایسے مسلمانوں کی حالت پر اگر کبھی ہم تلخ تنقید کرجاتے ہیں تو ہمیں خارجیت کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ (ترجمان القرآن،جولائی ،اگست ۱۹۴۵ء)