جواب
جہاں خاندان کے لوگ جاہلیت میں مبتلا ہوں اور راہِ راست پر چلنے میں اپنے بھائی بندوں کی مزاحمت کرتے ہوں ،وہاں تو فی الواقع جدائی ڈالنا ہی ہمارا کام ہے۔ایسے اعزّہ واقربا اور دوستوں سے اہلِ ایمان کو ملانا نہیں بلکہ توڑنا اور کاٹنا ہی ہمارے پیشِ نظر ہے۔ لہٰذاجو الزام ہمارے رفیق کے بھائی نے آپ پر لگایا ہے ،اس کی تردید کی ضرورت نہیں بلکہ صاف صاف اعتراف کی ضرورت ہے اور بہت نرمی کے ساتھ ان کو اس بات سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر وہ اس جدائی کو میل اور موافقت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو خدا پرستی اور دین داری میں مزاحم ہونے کے بجاے مددگار اور ساتھی بننے کی کوشش کریں ، ورنہ ہم اور ہمارا رفیق اپنے طرزِ عمل پر قائم رہیں گے اور آپ کو اختیار ہے کہ جو سلوک آپ کا نفس ہمارے ساتھ کرنا چاہتا ہے وہ کرے۔
البتہ یہ خیال رکھیے کہ آپ کی طرف سے کوئی بات ضد یا اشتعال دلانے والی نہ ہو،بلکہ صبر وتحمل کے ساتھ اس شخص کے نفس کی اصلاح کرنے کی کوشش کیجیے جس کو جاہلیت کے غلبے نے اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ وہ اس آیت کا مصداق بن گیا : اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يَنْہٰىo عَبْدًا اِذَا صَلّٰى ( العلق:۹،۱۰ ) ’’تم نے دیکھا اُس شخص کو جوایک بندے کو منع کرتا ہے۔ جب کہ وہ نماز پڑھتا ہو؟‘‘
درحقیقت یہ دیکھ کر بڑ ادُکھ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے گروہ میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جن کو نماز کی پابندی تک گوارا نہیں ہے۔خود پابندی کرنا تو درکنار، دوسرااگر ایسا کرتا ہے تو اس پر بھی بگڑتے ہیں ۔ایسے مسلمانوں کی حالت پر اگر کبھی ہم تلخ تنقید کرجاتے ہیں تو ہمیں خارجیت کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ (ترجمان القرآن،جولائی ،اگست ۱۹۴۵ء)