اردوزبان میں جمعہ کاخطبہ بلاکر اہت جائز ہے

,

خطبۂ جمعہ غیرعربی میں پڑھنا کیسا ہے؟ اورامام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلے میں کیا وضاحت فرمائی ہے؟

جواب

غیرعربی زبان میں خطبۂ جمعہ اور لاؤڈاسپیکرپرخطبہ ونما ز کے جوازوعدم جوازنیز ریڈیواورٹیلی فون سے چاند کی خبروں کے اعتبار وعدم واعتبارپرعرصہ درازسے مقالے اوررسالے لکھے جارہے ہیں۔ علماء کی ایک جماعت اردو زبان میں خطبۂ جمعہ اور لائوڈاسپیکر پر خطبہ ونماز کے جواز کی قائل ہے۔نیز وہ ریڈیو اورٹیلی فون سے چاند کی خبروں کا اعتبار کرتی ہے۔ علماء کی دوسری جماعت ان تمام مسئلوں میں پہلی جماعت سے اختلاف رکھتی ہے۔ دونوں جماعتوں نے اپنے مسلک پر مقالے اور کتابیں لکھی ہیں۔  راقم الحروف ان سب مسائل میں پہلی جماعت کے ساتھ ہے۔ میرے نزدیک بھی اردو زبان میں خطبۂ جمعہ، لاوڈاسپیکرپرعیدین اورجمعہ کے خطبے اورنماز یں بلاکر اہت جائز ہیں۔  اسی طرح ریڈیو اور ٹیلی فون سے اگر مستند اداروں یا مستند اشخاص کی طرف سے رویت ہلال کی خبریں دیں جائیں تو ان کا اعتبار کیا جانا چاہیے۔  میں ذیل میں خطبۂ جمعہ کی زبان کے بارے میں تھوڑی سی وضاحت کررہاہوں۔

امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک غیرعربی زبان میں خطبۂ جمعہ نہ ناجائز ہے نہ مکروہ تحریمی ہےبلکہ بلاکراہت جائز ہے۔ جو لوگ اس کو ناجائز یا مکروہ تحریمی کہتے ہیں ان کا خیال میرے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ فقہ حنفی کی متداول کتابوں میں امام صاحب کے مسلک کی بناپرنہ اس کے عدم جواز کی دلیل ملتی ہے،نہ اس کے مکروہ تحریمی ہونے کی کوئی سنددستیاب ہوتی ہے بلکہ اس کے برعکس ان کتابوں سے یہ ثابت ہوتاہے کہ غیرعربی زبان میں خطبۂ جمعہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بلاکر اہت جائز ہے۔

یہ بات اہل علم کومعلوم ہے کہ امام صاحب کے نزدیک قرأت قرآن سے لے کر اندرون نماز کے تمام اذکار اور دعائیں فارسی زبان میں جائز تھیں اور صاحبین (امام ابویوسف رحمہ اللہ وامام محمد رحمۃ اللہ علیہ) نیز دوسرے ائمہ کے نزدیک ناجائز۔ قرأت کے بارے میں امام صاحب نے اپنے دونوں شاگردوں کے مسلک کی طرف رجوع کرلیا۔ اس لیے کہ قرأت کے معاملے میں صاحبین کی دلیل قوی تھی لیکن جہاں تک نماز کے دوسرے اذکار کا تعلق ہے ان کا اپنے مسلک سے رجوع ثابت نہیں۔  بلکہ صاحب درمختارنے پوری قوت کے ساتھ لکھا ہے کہ قرأت کے بارے میں امام صاحب نے صاحبین کے مسلک کی طرف رجوع کیا اور نماز کے دوسرے اذکار کے بارے میں صاحبین نے اپنے استاذ کے مسلک کی طرف رجوع کیا۔ فتاویٰ تاتارخانیہ سے بھی صاحب درمختارکی تائیدہوتی ہے۔ علامہ شامی نے اس کی یہ عبارت نقل کی ہے

وَفِیْ شَرْحِ الطَّحَاوِیْ وَلَوْکَبّربِالْفَارِسِیّۃ عِنْدَالذَّبحِ اَوْلَبّی عِنْدَالِاحْرَامِ بِالْفَارِسِیّۃ اَوْ بِای لِسَانٍ یُحْسِنُ العَرَبِیّۃَ اَوْلَا جَازَبِالِاتّفَاقِ    (شامی جلد۱)

’’اور شرح طحاوی میں ہے کہ اگرفارسی میں تکبیر کہے یا ذبح کے وقت فارسی میں بسم اللہ اللہ اکبر پڑھے یا احرام کے وقت فارسی میں تلبیہ (لبیک ) کہے یا کسی زبان میں بھی،وہ عربی پرقادرہو یا نہ ہوبہردوحال بالاتفاق جائز ہے۔‘‘

علامہ شامی نے یہ احتمال پیداکیا ہے کہ تکبیر سے مراد تکبیر تشریق یاذبح کے وقت اللہ اکبر کہنا ہوسکتا ہے۔ اس میں تکبیر تحریمہ کی صراحت نہیں ہے۔ اس احتمال پرانھوں نے دلیل یہ دی ہےکہ تکبیرکے بعد جتنی چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ سب نماز سے باہر کی چیزیں ہیں اس لیے تکبیر کو بھی نماز سے باہر کی تکبیرہونا چاہیے۔ اس احتمال کے جواب میں ادب کے ساتھ عرض کیا جاسکتا ہے کہ شارح طحاوی کامقصد یہ تھا کہ قرأت کے سوا نماز کے اذکارہوں یا غیرنماز کے، دونوں صورتوں میں ان کو غیرعربی زبان میں ادا کرنا بالاتفاق جائز ہے۔ اذکار نماز کے لیے انھوں نے تکبیر تحریمہ کو بطورمثال ذکرکیا۔اس کےبعد نماز سے باہر کے اذکار لکھے۔ اوراگر اس احتمال کوتسلیم بھی کرلیا جائے تواتنی بات ثابت ہی ہوتی ہے کہ نماز سے باہر کے اذکارکو غیرعربی زبان میں ادا کرنا امام ابوحنیفہؒ،امام ابویوسفؒ اورامام محمدؒ سب کے نزدیک جائز ہے۔اور جب خطبۂ جمعہ نماز سے باہر کے اذکار میں داخل ہے تو پھر اس کا غیرعربی زبان میں ادا کیاجانا صاحبین کے نزدیک جائز ہے۔  اور جب خطبۂ جمعہ نماز سے باہر کے اذکار میں داخل ہے توپھر اس کا غیرعربی زبان میں ادا کیاجانا صاحبین کے نزدیک بھی ناجائز کیوں ہوگا؟ لہٰذا اس عبارت سے ثابت ہواکہ خطبۂ جمعہ غیرعربی زبان میں بالاتفاق جائزہے۔

جو لوگ غیرعربی زبان میں خطبۂ جمعہ کو مکروہ تحریمی کہتے ہیں وہ بھی ایک بے دلیل بات کہتے ہیں۔  اس لیے کہ امام صاحب کے مسلک کے لحاظ سے، کراہت وعدم کراہت کی ساری بحث نماز کے اندرونی اذکار وادعیہ کے بارے میں ہے، نماز سے باہر کے اذکار یا وعظ ونصیحت کے بارے میں نہیں  ہے۔ خطبۂ جمعہ نماز سے باہر کے ذکر ونصیحت میں ہے۔ اس لیے امام صاحب کے مسلک پرغیرعربی میں اس کے مکروہ ہونے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ راقم الحروف نے بعض فتووں میں پڑھاکہ مفتی صاحب نے علامہ شامی کے قول لکن سیاتی کراھۃ الدعاء بالاعجمیۃ (عنقریب عجمی زبان میں دعا کی کراہت کا بیان آرہاہے) سے غیرعربی زبان میں خطبۂ جمعہ کی کراہت تحریمی پراستدلال کیا ہے۔ یہ استدلال دیکھ کر تعجب ہواکیوں کہ جہاں اس کا بیان آیا ہے وہاں نماز کے اندر کی دعا کا ذکر ہے اور علامہ شامی نے اس پر پوری بحث کی ہے اور نماز کے اندر کی دعا کے بارے میں بھی بعض کتابوں کے حوالے دے کر لکھا ہے کہ اس سے کراہت تنزیہی نکلتی ہے اور آخر میں کم زور الفاظ میں اپنی یہ رائے دی ہے۔

ولا یبعدان یکون الدعاء بالفارسیۃ مکروھا تحریما فی الصلوۃ وتنزیھا خارجھا فلیتامل ولیراجع                                     (ردالمختار)

’’یہ بعید نہیں ہے کہ فارسی میں دعا نماز کے اندر مکروہ تحریمی اور نماز سے باہر مکروہ تنزیہی ہو۔ پس غورکرنا چاہیے اور کتابیں دیکھنی چاہییں۔ ‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ نماز کے اندر فارسی زبان کی دعا کو بھی مکروہ تحریمی کہنا مشکل ہے اور نماز سے باہر کی فارسی دعا کو مکروہ تنزیہی کہنا بھی آسان نہیں۔  ان دونوں میں کسی بات پرعلامہ شامی کو اطمینان نہ تھا۔ یہ ہے علامہ شامی کے قول لکن سیاتی کراھۃ الدعاء بالاعجمیۃ کی حقیقت۔  اس قول سے غیرعربی خطبۂ جمعہ کی کراہت تحریمی پراستدلال کرنا عجیب وغریب چیز ہے۔بہرحال امام ابوحنیفہؒ کے مسلک کی بناپر غیرعربی میں خطبۂ جمعہ، کومکروہ تحریمی کہنے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

ایک اور پہلو سے اس مسئلے پر غورکیجیے۔ یہ بات ثابت ہے کہ جو شخص عربی زبان پرقادر نہ ہو اس کے لیے نماز کے اذکار کو غیرعربی میں ادا کرنا بالاتفاق او ر بلاکراہت جائز ہے۔ اوراس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔اب یہ دیکھیے کہ ہندوستان میں جمعہ کے کتنے خطیب ایسے ہیں جو عربی زبان میں خطبہ دینے پر قادر ہوں۔ شاید چند فی صد بھی ایسے خطیب نہ نکل سکیں۔  تو پھر ایسے خطیبوں کا اردو زبان میں یا کسی غیرعربی زبان میں خطبۂ جمعہ دینا صاحبین کے مسلک کی بناپر بھی بلاکراہت جائز ہوگا۔ اگر کوئی صاحب کہیں کہ عام طورسے ہمارے خطیبان جمعہ عربی زبان پرقادرنہ ہوں لیکن عربی کے چھپے ہوئے خطبوں کو کتاب سے دیکھ کر پڑھنے پرتو قادر ہیں۔ تومیں سوال کروں گا کہ کسی صحابی،کس تابعی اور کس تبع تابعی نے کتاب میں دیکھ کر خطبہ پڑھا ہے؟ اگر اردوزبان میں خطبۂ جمعہ اس لیےبدعت ہے کہ یہ سنت کے خلاف ہے تو پھرکتاب میں دیکھ کرخطبہ پڑھنا بدعت اورخلافت سنت کیوں نہیں ہے؟اور صورت حال یہ ہے کہ  کم ازکم پچاس فی صد خطبائے کرام عربی کے چھپے ہوئے خطبے بھی غلط سلط پڑھتے ہیں۔

میں ان محترم علماء کی خدمت میں جواب بھی غیرعربی زبان میں خطبۂ جمعہ کو ناجائز یا مکروہ تحریمی کہتے ہیں، یہ گزارش کرتاہوں کہ وہ اپنے خیال پرنظر ثانی فرمائیں۔      (اپریل ۱۹۶۶ء،ج۲۶،ش۴)