(۲)ایک صاحب بنارس سے لکھتے ہیں
’’اتفاقاً ایک روز رسالہ زندگی ذی الحجہ ۱۳۸۵ہجری کامطالعہ کررہاتھا کہ اچانک ایک سوال کا جواب نظر سے گزرا۔ اس میں آپ نے اردو زبان میں خطبہ کو بلاکراہت جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ پڑھ کر بہت حیرت ہوئی کہ آپ جیسا ذی علم کیسے اس کے جواز کا قائل ہوگیا۔ افسوس کہ آپ نے تین صفحات تحریر فرمائے لیکن کوئی مضبوط ومعقول دلیل نہ پیش کرسکے اور پھر یہ فرماتے ہیں کہ جو علماء کرام خطبۂ جمعہ کو اردو زبان میں ناجائز کہتے ہیں یا مکروہ تحریمی کہتے ہیں وہ اپنے خیال پرنظر ثانی فرمائیں۔ خوب رہایہ تو۔
مکرمی!نظرثانی کی حاجت توجب ہے کہ آپ کی دلیل قوی ہوتی،معقول وجہ ہوتی۔ انداز تحریر تویہ بتاتا ہے کہ یہ آپ کی ذاتی رائے ہے،قیاس محض ہے۔ کیا آپ کا قیاس اورآپ کی رائے دین میں حجت بن سکتی ہے؟ جتنے حوالے آپ نے پیش فرمائے ہیں کسی سے بھی اشارتاً کوئی ادنیٰ سابھی جواز کا پہلو نکلتا نظر نہیں آتا ہے۔ پھر کس دلیل پراعتماد کرلیاجائے اور یہ پہلو جو آپ نے نمایاں فرمایا ہے کہ ’’صورت حال یہ ہے کہ کم سے کم پچاس فی صد خطبائے کرام عربی کے چھپے ہوئے خطبے بھی غلط سلط پڑھتے ہیں۔ ‘‘ بات تو معقول ہے مگراس کے پیش نظر یہ فیصلہ کرنا کہ خطبہ اردو زبان میں بلاکراہت جائز ہے، عجیب سی بات ہے۔ اس لیے کہ اس پر ہم سوال کرتے ہیں کہ قرآن مجید بھی تو پچاس نہیں سترفی صد لوگ غلط پڑھتے ہیں، تلفظ درست نہیں ہوتا ہے، تو کیا آپ وہاں یہ فتوے دیں گے کہ لوگ قرآن کو اب رہنے دیں۔ ترجمہ ہی پڑھ لینے پر اکتفا کرلیا کریں ؟ ہم یہ سوال کرسکتے ہیں کہ کتنے ہیں جو قرآنی وحدیثی نماز کی دعائوں کو غلط پڑھتے ہیں تلفظ درست نہیں ہوتا ہے تووہاں آپ یہ فتویٰ دیں گے کہ لوگ دعائیں رہنے دیں، فقط ترجمہ پڑھ لیا کریں۔ ارے مولانا! کتنے موذن ہیں جو اذان وتکبیر کے الفاظ کو صحیح نہیں ادا کرتے ہیں۔ کیا آپ وہاں فرمائیں گے الفاظ کو اب رہنے دو،ترجمہ ہی زورسے کہہ دیا کرو۔ میری گزارش یہ ہے کہ آپ خود اپنے خیال اور اپنے فتوے پرنظر ثانی ہی نہیں بلکہ نظرثالث ورابع فرمائیں اور کتب فقہیہ کامطالعہ پھر سےکریں اور علمائے حقانی کے فتوؤں کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ اچھا لیجیے، اب ہم ایک دلیل پیش کرتے ہیں، اس کو آپ سامنے رکھیے اور اپنے فتوے کو بھی سامنے رکھیے اورپھر فیصلہ فرمائیں کہ کس کی دلیل مستحکم اور قوی ہے؟ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مواظبت خطبہ بالعربیہ پرظاہر ہے اوراس کی عربی کی مقصودیت حضرات صحابہؓ کے ممالک عجم میں باوجود صحابہؓ کے عارف بالفارسیہ ہونے اور باوجود حاجت سامعین کے غیرعربی میں نہ پڑھنے سے ثابت ہے جب یہ عربیت مقصودبالمواظۃ ہوئی تواس قید کی رعایت سنت موکدہ ہوگئی اور سنت موکدہ کے ترک کو فقہانے موجب اثم اور بعض جزئیات میں موجب فسق قراردیاہے، جو کراہت تحریمہ پردلالت کے لیے کافی ہیں۔ ‘‘ (امدادالفتاویٰ ج ۱،ص۴۴۲، مطبوعہ کراچی)
نیز مولاناتھانوی رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال فرماتے ہیں اس کا آپ کے پاس کیا جواب ہے ’’پھر اگر سامعین میں آٹھ دس زبانوں والے ہوں تو کیا خطیب کےلیے یہ شرط ہوگی کہ وہ سب زبانوں کا ماہر ہواگر نہیں تو دوسری زبانوں والوں کی کیا رعایت ہوگی۔‘‘ امداد الفتاویٰ جلد۱، ص ۴۴۳(واللہ اعلم بالصواب)
جواب
میں نے آپ کا پورا خط لفظ بلفظ نقل کردیا ہے تاکہ اندازہ ہوکہ بعض اوقات جوش عقیدت کس طرح فکروفہم کا دروازہ بند کردیتاہے۔ آپ نے اپنے معتقد علیہ علماء کے جوش عقیدت میں اس کا لحاظ بھی نہیں رکھا کہ مجھ سے کیا سوال کیاگیا تھا اور میں نے کیا جواب دیا ہے؟ اپریل ۱۹۶۶ء کے رسائل ومسائل میں، میں نے جس سوال کا جواب دیا ہے وہ یہ تھا کہ سائل امام ابوحنیفہؒ کے مذہب فقہی کی روسے غیرعربی میں خطبۂ جمعہ کے مسئلے کی وضاحت چاہتے تھے۔اسی لیے میں نے جواب میں صرف مذہب حنفی کی روسے مسئلے کی وضاحت کی ہے۔ نہ میں نے خطبۂ جمعہ کے مقصد پر گفتگو کی ہے،نہ مصالح کا ذکر کیا ہے اور نہ اپنی طرف سے غیرعربی خطبۂ جمعہ کے جوازپر دلائل قائم کیے ہیں۔ بلکہ جو کچھ لکھا ہے، فقہ حنفی کی کتابوں کے حوالے سے لکھا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ فقہ حنفی کی متداول کتابوں میں امام صاحب کے مسلک کی بناپرنہ اس کے عدم جواز کی دلیل ملتی ہے اور نہ اس کے مکروہ تحریمی ہونے کی کوئی سند دستیاب ہوتی ہے، بلکہ اس کے برعکس ان کتابوں سے یہ ثابت ہوتاہے کہ غیرعربی زبان میں خطبۂ جمعہ امام ابوحنیفہؒ کے مسلک کی روسے بلاکر اہت جائز ہے، پھر میں نے درمختاراورشامی کے حوالوں سے اس پر بحث کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ نماز سے باہر کے اذکار کو غیرعربی زبان میں ادا کرنا امام ابوحنیفہؒ، امام ابویوسفؒ اورامام محمدؒ سب کے نزدیک جائز ہے۔ اور خطبۂ جمعہ نماز جمعہ سے باہر کے اذکار میں داخل ہے لہٰذا اس کا غیرعربی میں ہونا صاحبین کے نزدیک بھی ناجائز نہ ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ائمہ ثلاثہ کےمسلک پر غیرعربی زبان میں خطبۂ جمعہ بالاتفاق جائز ہے۔
آپ نے اپنے خط میں اس کو میری ذاتی رائے، محض قیاس او رمعلوم نہیں کیا کیا کہہ ڈالا ہے۔آپ نے جوش عقیدت میں یہ دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا ہے کہ حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے جو کچھ تحریر فرمایا ہے اس میں فقہ حنفی کی کسی کتاب کا حوالہ نہیں ہے بلکہ صغریٰ کبریٰ قائم کرکے جو کچھ لکھا ہے بطورخود لکھا ہے۔پھر یہ کتنی عجیب بات ہے کہ میں نے کتابوں کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے وہ تو میری ذاتی رائے بن گیا اور حکیم الامت نے جو کچھ تحریر فرمایا ہے وہ مذہب حنفی قرار پایا۔
حکیم الامت سے مجھے بھی عقیدت ہے لیکن اتنی نہیں کہ ان کے قول کو تو دلیل سمجھوں اور ائمہ ثلاثہ کے قول کو دلیل نہ سمجھوں۔ اصل میں نکتے کی بات تو آپ کا یہ مشورہ ہے کہ ’’کتب فقہیہ کا مطالعہ پھر سے کریں اور علماءحقانی کے فتوؤں کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ ‘‘ گویا میں الٹی گنگابہائوں یعنی علمائے حقانی کے فتوؤں کو کتب فقہہ کی روشنی میں نہ سمجھوں بلکہ کتب فقہیہ کو علمائے حقانی کے فتوؤں کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کروں۔ اس کا مطلب اس کے سوا اور کیاہوگا کہ حکیم الامت نے جو کچھ لکھ دیا ہے میں آنکھیں بند کرکے اسی کو امام اعظمؒ کاقول سمجھ لوں۔ اس سے بہترتو یہ تھا کہ آپ مجھے یہ مشورہ دیتے کہ میرے پاس جو سوالات آتے ہیں میں ان کے جوابات علمائے حقانی کے فتوؤں میں تلاش کروں، اگرمل جائیں تو وہی حرف بحرف نقل کردوں اور نہ ملیں تو سائل کو لکھ بھیجوں کہ علمائے حقانی کے فتوؤں میں تمہارے سوال کا جواب نہیں ملا۔
آپ نے اپنے خط میں میرے ساتھ یہ زیادتی بھی کی ہے کہ میں نے ایک سوال کے ضمن میں غلط سلط خطبہ پڑھنے کی جوبات لکھی تھی اس کو آپ نے میرے فیصلہ کی دلیل قراردےدیا۔میں نے سوال یہ کیا تھا کہ کتابوں میں دیکھ کر چھپے ہوئے عربی خطبے پڑھنا بدعت اور خلاف سنت کیوں نہیں ہے؟ آخر کس صحابی،کس تابعی اور کس تبع تابعی نے کتابوں میں دیکھ کر خطبہ پڑھا ہے؟ اس سوال کے ضمن میں میں نے لکھا تھا’’اور صورت حال یہ ہے کہ کم سے کم پچاس فی صد خطبائےکرام عربی میں چھپے ہوئے خطبے بھی غلط سلط پڑھتے ہیں۔ ‘‘ آپ نے صرف اخیر کا جملہ کاٹ کر مجھ پر سوالات کی چاندماری شروع کردی۔ ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ وہ عبارت دلیل جواب کے طورپر نہیں لکھی گئی ہے بلکہ یہ دکھانے کے لیے لکھی گئی ہے کہ جو لوگ غیرعربی میں خطبۂ جمعہ کو مکروہ تحریمی کہتے ہیں وہ بڑے اطمینان سے چھپے ہوئے عربی خطبے پڑھتے ہیں حالاں کہ جس دلیل کی بناپر وہ غیرعربی خطبے کو مکروہ تحریمی کہتے ہیں اسی دلیل کی بناپر کتاب دیکھ کر عربی خطبہ پڑھنا بھی مکروہ تحریمی ثابت ہوتا ہے۔ دیکھیے حکیم الامت رحمۃ اللہ نے جس صغریٰ کبریٰ سے غیرعربی خطبۂ جمعہ کو مکروہ تحریمی ثابت کیا ہے ٹھیک اسی سے بہت سی چیزیں مکروہ تحریمی ثابت ہوجاتی ہیں۔ مثال کے طورپر دعاکو لے لیجیے جس کا عبادت ہونا ہرشے سے بلند ہے بلکہ اسے مغزعبادت بھی کہاگیا ہے۔ میں غیرعربی زبان میں دعامانگنے کو (خواہ وہ نماز کے اندر ہو یا اس سے باہر ) مکروہ تحریمی ثابت کرنے کےلیے وہی صغریٰ کبریٰ اس طرح قائم کرتاہوں۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مواظبت عربی دعا پرظاہر ہے اوراس کی عربیت کی مقصودیت اس طرح ظاہر ہے کہ بعض صحابہؓ فارسی زبان سے واقف تھے اور تابعین وتبع تابعین میں کتنے ہی واقف تھے لیکن کسی نے غیرعربی میں نماز سے باہر بھی دعا نہیں مانگی۔ کسی صحابی، کسی تابعی،کسی تبع تابعی سے کوئی ایک غیرعربی دعا بھی منقول نہیں۔ جب یہ عربیت مقصود بالمواظبت ہوئی تو اس قید کی رعایت سنت موکدہ ہوگئی اور سنت موکدہ کے ترک کو فقہائے کرام نے موجب اثم اور بعض جزئیات میں موجب فسق قراردیاہے جو کراہیت تحریمہ کے لیے کافی ہے۔ لہٰذا ثابت ہواکہ غیرعربی زبان میں دعا مانگنا مطلقاً مکروہ تحریمی ہے۔‘‘
کیا آپ اس صغریٰ کبریٰ اوراس کے نتیجے سے متفق ہیں ؟ پھراسی صغریٰ کبریٰ سے ثابت ہوتاہے کہ قرآن کا غیر عربی زبان میں ترجمہ کرنا بھی مکروہ تحریمی ہے۔ کیوں کہ یہاں تو یہ حاجت بھی موجود تھی کہ عربی نہ جاننے والوں کو قرآن سے واقف کرانے کے لیے غیرعربی میں اس کا ترجمہ نہیں کیا تواب اس کے مکروہ تحریمی ہونے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے؟ لیکن آپ جانتے ہیں کہ اردو میں قرآن کا ترجمہ کرکے اس مکروہ تحریمی کا ارتکاب خود حکیم الامت نے کیا ہے اور اب تو اس مکروہ ومنکر کا بہت رواج ہوگیا ہے۔ فرمائیے اس استدلال سے آپ متفق ہیں ؟ یقیناً نہیں ہوں گے۔ اس لیے کہ یہ مجھ جیسے معمولی آدمی کی طرف سے پیش کیا جارہاہے، حکیم الامت کی طرف سے نہیں پیش کیا جارہاہے۔ بات یہ ہے کہ جس چیز کا تعلق جذبات عقیدت سے ہوجاتاہے وہاں عقل وانصاف دونوں پرمہرلگ جاتی ہے۔ اس مسئلے میں تو سنت موکدہ اورمکروہ تحریمی کی وہ تعریف بھی ساقط کردی گئی ہے جواصول فقہ کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے۔
محترم میں پھر عرض کرتاہوں کہ امام ابوحنیفہؒ کے مذہب کی روسے غیرعربی زبان میں خطبۂ جمعہ کو مکروہ تحریمی کہنا بالکل غلط ہے۔ جس حنفی عالم دین نے بھی اس کو مکروہ تحریمی قراردیا ہے محض اپنی ذاتی رائے سے قراردیاہے۔آپ یا کوئی صاحب یہ ثابت کردیں کہ مذہب امام اعظم کی روسے غیرعربی خطبۂ جمعہ مکروہ تحریمی ہے تو میں اپنا وہ جواب واپس لے لوں گا جو میں نے زندگی اپریل ۱۹۶۶ء میں دیا ہے۔ اخیرمیں آپ کی واقفیت کے لیے میں ایک ایسا حوالہ بھی نقل کرتاہوں جس میں خطبۂ جمعہ کی صراحت ہے۔
وَ عَلٰی ھَذَا لِخِلاَفِ لَوْ تَشَھَّدَ اَوْ خَطَبَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ بِالفَارِسِیّۃ (بدائع الصنائع،ج۱،ص۱۱۳)
’’اوریہی اختلاف ہے اگر کوئی شخص فارسی میں تشہد پڑھے یا فارسی میں جمعہ کاخطبہ دے۔‘‘
یعنی امام اعظم کے نزدیک فارسی زبان میں جمعہ کاخطبہ مطلقاً جائز ہے، خطیب عربی زبان پر قادر ہویا نہ ہو۔ اور صاحبین کے نزدیک فارسی زبان میں خطبہ اس وقت جائز ہے جب خطیب عربی زبان پر قادرنہ ہو۔علامہ کاسانی نے امام اعظم ہی کے قول کی تصویب وتائید کی ہے۔ (اپریل ۱۹۶۹ء،ج۴۲،ش۴)