(۳)فقہ حنفی کی پیروی کرنے والے کچھ لوگوں کو اردو زبان میں خطبۂ جمعہ پر اعتراض ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جمعہ کا خطبہ تو عربی زبان ہی میں ہونا چاہیے۔ اردو زبان میں خطبہ دینا جائز نہیں ہے۔آپ قرآن وحدیث سے مدلل جواب دیجیے کہ اردو زبان میں جمعہ کاخطبہ دینا جائز ہے یا نہیں ؟
جواب
اس سوال کاجواب پہلے بھی ماہ نامہ زندگی کے رسائل ومسائل میں شائع کیا جاچکا ہے۔ زندگی جلد ۳۶شمارہ ۴؍اپریل ۱۹۶۶ء میں ثابت کیاگیا تھا کہ امام ابوحنیفہؒ کے قول کے مطابق اردو زبان میں جمعہ کاخطبہ بلاکر اہت جائز ہے۔ اس جواب پربعض لوگوں نے معترضانہ خط لکھا تھا۔ اس کا مفصل جواب زندگی جلد ۴۲شمارہ ۴ اپریل ۱۹۶۹ء میں دیاگیاتھا۔ اب تیسری باریہ جواب تحریرکیا جارہا ہے۔ جواب پڑھنے سے پہلے خطبۂ جمعہ کے بارے میں یہ چارباتیں ذہن نشین رکھیے
۱-خطبۂ جمعہ حمدوصلوٰۃ،دعا،وعظ ونصیحت، تقویٰ اور رجوع الی اللہ کی ترغیب اور حالات کے مطابق دینی مسائل کی تعلیم سے مرکب ہوتاہے۔
۲-خطبہ ٔجمعہ نماز جمعہ کارکن نہیں بلکہ نماز سے باہر کی چیزہے۔
۳- خطبۂ جمعہ اور نماز جمعہ کے احکام مختلف ہیں۔ مثلاًنماز جمعہ قبلہ روادا کی جاتی ہے اور خطبہ قبلہ کی طرف پیٹھ کرکے دیا جاتاہے۔ ہندوستان میں خطیب کامنہ پورب کی طرف ہوتاہے۔
۴- نماز جمعہ بغیر طہارت بالکل جائز نہیں ہے اور خطبۂ جمعہ بغیر طہارت کے جائزہے۔
اب آپ کے سوال کا جواب مختصرا ًعرض کرتاہوں۔ قرآن اور احادیث میں کہیں کنایۃً و اشارۃً بھی یہ موجود نہیں ہے کہ جمعہ کاخطبہ صرف عربی زبان میں دینا چاہیے۔ اسی طرح یہ بھی موجود نہیں ہے کہ جمعہ کا خطبہ عربی کے علاوہ دوسری زبانوں میں بھی دیاجاسکتا ہے۔ اس لیے یہ ایک خالص اجتہادی مسئلہ ہے۔ ہم خود اجتہاد کرنے کے بجائے اگر یہ دیکھ لیں کہ فقہ حنفی میں اس کا کیا جواب دیاگیا ہے تو بات مختصر ہوجائےگی۔
فقہ حنفی کی کتابوں میں ہمیں یہ جواب ملتا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک جمعہ کاخطبہ عربی کے علاوہ دوسری کسی زبان میں دینا مطلقاً جائز ہے، خواہ خطبہ دینے والا عربی زبان بولنے پرقدرت رکھتاہو، یا نہ رکھتا ہو،سننے والے عربی ہوں یا عجمی۔ صاحبین یعنی امام ابویوسفؒ اورامام محمدؒ کے بارے میں فقہ حنفی کی بعض کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ ان دونوں کے نزدیک عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں خطبہ دینا اس وقت جائز ہےجب خطبہ دینے والا عربی زبان بولنے پرقادرنہ ہو یا اچھی عربی نہ بول سکتاہو۔علامہ کا سانی ؒ امام ابوحنیفہؒ اور ان کے صاحبین کے درمیان اس اختلاف کی تفصیل پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں
وعلی ھذا الخلاف لوتشھداوخطب یوم الجمعۃ بالفارسیۃ (بدائع الصنائع،ج۱،ص۱۱۳)
’’اور یہی اختلاف ہے اگر کوئی شخص فارسی زبان میں تشہد پڑھے یا جمعہ کا خطبہ دے۔‘‘
یہی بات ہدایہ میں بھی لکھی ہے
والخطبہ والتشھد علی ھذاالاختلاف (ہدایۃ مع فتح القدیر،ج۱،ص۲۰۱)
’’خطبہ اور تشہد میں بھی یہی اختلاف ہے۔‘‘
یعنی امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک فارسی زبان میں جمعہ کا خطبہ دینا مطلقاً جائز ہے اور صاحبین کےنزدیک اس وقت جائز ہے جب خطیب کو عربی زبان پرقدرت نہ ہو۔ امام ابوحنیفہؒ کے قول کے مطابق یہ فارسی زبان کی کوئی خصوصیت نہیں ہے بلکہ عربی کے علاوہ کسی زبان میں بھی جمعہ کاخطبہ دیاجاسکتا ہے۔ فقہا نے اس کی صراحت کی ہے کہ امام اعظم کے نزدیک نماز میں تشہد وغیرہ میں فارسی زبان کی خصوصیت نہیں ہے۔ ہدایہ میں ہے
ویجوز بای لسان کان سوی الفارسیۃ ھوالصحیح۔
’’فارسی کے علاوہ ہرزبان میں جائز ہے۔ یہی قول صحیح ہے۔‘‘
عنایہ میں ہے
قال الکرخی والصحیح النقل الی ای لفہ کانت۔
’’امام کرخی نے کہا کہ صحیح قول یہ ہے کہ ترجمہ جس زبان میں ہوجائزہے۔‘‘
فقہ حنفی کی کتابوں میں یہ صراحت بھی ملتی ہے کہ نماز میں جہاں تک قرأت قرآن کا تعلق ہے امام اعظم نے صاحبین کے مسلک کی طر ف رجوع کرلیا تھا۔صاحب درمختار نے پورے یقین کے ساتھ اس رجوع کا ذکر کیا ہے۔اس لحاظ سے امام یوسف اورامام محمد کے نزدیک بھی فارسی یا کسی اور زبان میں جمعہ کاخطبہ مطلقاً جائز ہوگا، خواہ خطبہ دینے والے کو عربی زبان پرقدرت ہویا نہ ہو۔یہی وجہ ہےکہ کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ میں حنفیہ کے نزدیک بلااختلاف اس کو جائز قراردیاگیا ہے۔ مرتب کتاب خطبۂ جمعہ کی زبان پرگفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں
الحنفیۃ قالوا تجوز الخطبۃ بغیرالعربیۃ ولولقادر علیھا سواء کان القوم عربااو غیرھم (ج۱،ص۳۹۱،مطبوعہ مصر)
’’حنفیہ کہتے ہیں کہ عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں خطبہ دینا جائز ہے اگرچہ خطیب عربی زبان پرقادر ہو، عام ازیں کہ مخاطبین عربی ہوں یاعجمی۔‘‘
ان صراحتوں سے معلوم ہواکہ جہاں تک فقہ حنفی کاتعلق ہے عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں بھی جمعہ کا خطبہ دینا جائز ہے۔ اب یہ عجیب بات ہے کہ جو لوگ اردو زبان میں خطبۂ جمعہ پر اعتراض کرتے ہیں وہ ایک طرف توامام ابوحنیفہؒ کی تقلید کے مدعی ہیں اور دوسری طرف عربی میں خطبۂ جمعہ کو سنت موکدہ قراردیتےہیں اور اردو میں خطبۂ جمعہ کومکروہ تحریمی کہتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے پوچھیے کہ اس مسئلے میں ا ن کی تقلید کہاں گئی؟ پھر ان سے یہ بھی پوچھیے کہ سنت موکدہ کی تعریف کیاہے؟ میں اس کو صحیح سمجھتا ہوں کہ اگر فقہ حنفی کے کسی قول کے خلاف کوئی مضبوط دلیل ہوتواس سے اختلاف کیاجاسکتا ہے۔ لیکن اس مسئلے میں مجھےکوئی ایسی دلیل نہیں معلوم جس کی بناپر فقہ حنفی کے قول کو رد کیا جاسکے۔ عربی میں خطبۂ جمعہ کو ضروری قراردینے والے حضرات کہتے ہیں کہ فارس اوردوسرے عجمی ممالک فتح ہوجانے کے بعد ان ممالک میں بھی صحابہ وتابعین نے خطبۂ جمعہ عربی ہی میں دیا ہے، کسی دوسری زبان میں نہیں۔ ان کی عربی زبان پر مواظبت یعنی ہمیشہ عربی زبان ہی میں جمعہ کا خطبہ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ عربی میں خطبہ دینا ضروری ہے۔ اس لیے غیرعربی میں خطبہ دینا مکروہ تحریمی ہوگا۔ غورکیجیے یہ کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ ایک دعویٰ ہے جو خود محتاج دلیل ہے۔ پہلے ان صحابہ وتابعین کے نام معلوم ہونے چاہییں جو عربی کے علاوہ فارسی یا کسی اور زبان پرقدرت رکھتے ہوں اور پھر یہ معلوم ہونا چاہیے کہ انھوں نے عجمی ممالک میں جمعہ کے خطبے دیے ہیں اورہمیشہ عربی ہی میں دیے ہیں۔ کیا اس کا کوئی ثبوت ہے؟ اور اگر اس کو دلیل سمجھ لیا جائے تو اس دلیل سے کسی او ر زبان میں دعا مانگنا بھی مکروہ تحریمی ہوگا۔ دعاکے عبادت ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ اور کسی صحابی یا تابعی سے عربی کے سوا کسی دوسری زبان میں کوئی دعا منقول نہیں ہوئی۔ دعا میں عربی زبان پرمواظبت اس بات کی دلیل ہوگی کہ عربی ہی میں دعا مانگنا ضروری ہے لہٰذا غیرعربی میں دعا مانگنا مکروہ تحریمی ہوگا۔دوسری چیزیہ کہ عجمی لوگوں کو قرآن سے واقف کرانے کے لیے اس کا کسی عجمی زبان میں ترجمہ ہوناچاہیے تھا لیکن عہد رسالت سے صدیوں بعد تک قرآن کا کسی زبان میں ترجمہ نہیں ہوا اس لیے اردو میں قرآن کا ترجمہ کرنا بھی مکروہ تحریمی ہوگا۔ جو لوگ اردو میں جمعہ کے خطبے کو مکروہ تحریمی کہتے ہیں ان سے پوچھیے کیا وہ اردو میں دعا مانگنے اوراردو میں قرآن کے ترجمے کو بھی مکروہ تحریمی کہتے ہیں ؟ میں تویہ جانتا ہوں کہ جن عالم دین نے اردو میں خطبۂ جمعہ کو مکروہ تحریمی کہاہے انھوں نے خود قرآن کا اردو میں ترجمہ کیا ہے اور اردو میں دعامانگنے کو بھی مکروہ تحریمی نہیں کہتے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اردو میں خطبۂ جمعہ فقہ حنفی کی روسے مکروہ تحریمی نہیں ہے بلکہ بلاکراہت جائز ہے۔ الجمیعۃ دہلی عیدنمبر میں ’’سلہٹ میں حضرت شیخ الاسلام کی عید‘‘کے عنوان سے ایک مضمون نظر سے گزرا۔ اس سے معلوم ہواکہ مولانا سیدحسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے عید کا پہلا خطبہ عربی اور اردو دونوں زبانوں میں دیاتھا۔ عبارت یہ ہے
’’صبح کو ٹھیک ساڑھے نوبجے حضرت شیخ الاسلام نے اس نئی سڑک کی مسجد میں عیدالفطر کی نماز پڑھائی اورعربی زبان میں جو بلیغ خطبہ آپ نے ارشاد فرمایا وہ کوزہ میں علم وعمل کا سمندر اور پندوموعظت کابحربے کراں بندکرنے کا مصداق ثابت ہوا۔اس عربی خطبہ کے بعد حضرت نے عیدکے دن کی فضیلت، صدقہ فطرکے جمع وصرف کی شرعی صورت، اسلامی اجتماعات کی اہمیت اوراس کا فلسفہ وغیرہ اہم امور پر اردو زبان میں ناصحانہ انداز میں خطبہ ارشاد فرمایا۔ پھر حضرت نے خطبۂ ثانیہ عربی زبان میں (اردو زبان کے اختلاط کے بغیر) ارشاد فرمایا۔‘‘ (الجمیعۃ دہلی عید نمبر۱۸ ؍اکتوبر ۱۹۷۴ء)
عام طورسے جو لوگ اردو زبان میں خطبہ دیتے ہیں ان کا عمل بھی یہی ہے کہ پہلے خطبہ میں حمدوصلوٰۃ عربی میں پڑھتے ہیں اور اس کے بعد اردو میں دین کی باتیں بتاتے ہیں اور پھر دوسراخطبہ صرف عربی زبان میں دیتے ہیں۔ اس عمل کو مکروہ تحریمی کہنا ایک بےدلیل بات ہے اور کسی طرح صحیح نہیں ہے۔ (مئی ۱۹۷۷ء،ج۵۸،ش۵)