اردوزبان میں جمعہ کاخطبہ بلاکر اہت جائز ہے

,

(۴)یہاں کی مسجد میں بہت عرصے سے جمعہ کے پہلے خطبہ میں حمدوصلوٰۃ کے بعد اردو میں وعظ ونصیحت کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن اب کچھ لوگ اس پر اعتراض کررہے ہیں۔  وہ کہتے ہیں کہ جمعہ کے خطبے میں اردو کا کوئی جزنہ ہونا چاہیے۔ ایک مشہور ادارے کے دار الافتا نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ خطبہ کا کوئی حصہ اردو میں ہونا خلاف سنت ہے۔ اس لیے اگرافہام وتفہیم مقصود ہوتوخطبہ سے پہلے کچھ وعظ ونصیحت کردیا جائے۔ یہ ایک اہم اورہرہفتے کاعملی مسئلہ ہے اس لیے کتاب وسنت کی روشنی میں اس کو واضح کیجیے۔

جواب

بیس سا ل پہلے ۱۹۶۶ءمیں اسی طرح کے ایک سوال پراس حقیرنے اپریل۱۹۶۶ء  کے شمارے میں مفصل ومدلل اظہارخیال کیاتھا۔اس کا عنوان یہ تھا ’’اردو زبان میں خطبۂ جمعہ بلاکراہت جائز ہے۔‘اس میں، میں نے فقہ حنفی کی عبارتیں پیش کرکے ثابت کیاتھا کہ عربی کے علاوہ فارسی یا کسی دوسری زبان میں جمعہ کا خطبہ جائز ہے۔ اس کے بعد ۱۹۶۹ء میں ایک صاحب نے اسی طرح کا ایک فتویٰ میرے پاس بھیجا جس طرح کا آپ کے سوال میں ہے۔ اس کا جواب اپریل ۱۹۶۹ء کے شمارے میں دیا تھا۔اس کے علاوہ ایک جید عالم دین کا ایک مفصل ومدلل مقالہ اسی مسئلے پرمیں نے زندگی میں شائع کیا تھا۔ان سب کو یہاں دہرایا نہیں جاسکتا۔ اس مسئلے پراس حقیرنے غوربھی کیا ہے اور بہت کچھ پڑھابھی ہے۔ کوئی شرعی یا عقلی دلیل اس طرح کے فتوے کی نہیں ملی جس کا آپ نے سوال میں ذکر کیا ہے۔یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جو لوگ امام ابوحنیفہؒ کی تقلید کادعویٰ کرتے ہیں وہ اس مسئلے میں کس کی تقلید کرتے ہیں ؟ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن کریم کا ترجمہ جب فارسی زبان میں کیا تھا تواسی ذہنیت کے لوگوں نے ان کومطعون کیاہوگا۔

خدا کا شکرہے کہ اکابر کی اندھی تقلید کی ذہنیت بدل رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عربی زبان میں چھپے ہوئے خطبے کو طوطے کی طرح پڑھنا خلاف سنت ہے۔  اردو زبان میں جمعہ کا خطبہ دینا توعین اس مقصد کی تکمیل ہے جس کے لیے یہ خطبہ مشروع ہواہے۔ پہلے خطبہ میں حمدوصلوٰۃ کے بعد اردومیں وعظ ونصیحت اور دوسرا خطبہ عربی زبان میں، یہ صورت نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ اس میں کوئی کراہت بھی نہیں ہے۔جہاں لوگ عربی زبان نہ جانتے ہوں وہاں یہی صورت اختیارکرنی چاہیے۔(مئی ۱۹۸۶ء،ج۴،ش۵)