زندگی ماہ اپریل ۱۹۷۳ء عنوان ’صبر‘ صفحہ ۳۱سطر ۶ پرہے۔’’یہی وجہ ہے کہ قرآن میں باربار صبر اور نماز سے استعانت طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘ کہنا یہ ہےکہ لفظ استعانت میں طلب کامفہوم آگیا ہے۔ اس لیےدوبارہ ’طلب‘ لکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ شاید سہواً لکھاگیا ہو، یا میں اپنی کم علمی کی وجہ سے ایسا محسوس کررہاہوں۔ براہ کرم یہ بتائیے کہ صحیح بات کیا ہے؟
جواب
استعانت کے ساتھ ’طلب ‘کالفظ سہواً نہیں بلکہ قصداً لکھا گیا ہے۔ عبارت اردو زبان میں لکھی گئی ہے اوراس زبان میں استعانت کا لفظ اعانت، معاونت اورامداد کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ ’استعانت‘ کے ساتھ طلب کے اضافے کو غلط سمجھتے ہیں۔ میں نے اسی غلط خیال کو دور کرنے کے لیے ’طلب‘ کا لفظ بڑھایا ہے۔ آپ اردو لغت کامطالعہ کریں تو اس لفظ کے دومعنی ملیں گے۔ایک مدد چاہنا، مددمانگنا۔ اور دوسرا مدد، امداد اور معاونت۔
بات صرف لغت ہی کی نہیں، بلکہ اساتذہ کے کلام میں اس کا استعمال بھی ملتاہے۔ امیر مینائی نے امیر اللغات میں رند لکھنوی کا یہ شعر پیش کیا ہے۔
سرفروشی کا جو ہے معرکۂ عشق میں قصد
استعانت بھی طلب کر شہدا سے پہلے
آپ یہ جانتے ہوں گے کہ عربی زبان کے کتنے ہی الفاظ ایسے ہیں جو اردو زبان میں آکر اپنے معنی کے لحاظ سے بھی بدل گئے ہیں اور اپنے استعمال کے لحاظ سے بھی۔ اس لیے اردو میں مستعمل عربی الفاظ کو اردو لغت اوراساتذہ اردو کے کلام سے جانچنا چاہیے۔ (جون ۱۹۷۳ء ج۵۰ ش۶)