جواب
نکاح بالید، یعنی ہاتھ سے شہوت رفع کرنے کے بارے میں فقہاے اسلام کے تین مسلک ہیں :
۱۔ یہ کہ وہ مباح ہے اور زیادہ سے زیادہ اگر اس کے خلاف کچھ کہا جاسکتا ہے تو صرف اس قدر کہ مکارم اخلاق کے خلاف ہونے کی وجہ سے وہ ایک مکروہ اور ناپسندیدہ فعل ہے۔اس مسلک کے حامی یہ دلیل دیتے ہیں کہ کسی نص میں اس فعل کے حرام ہونے کی تصریح نہیں ہے اور اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ (الانعام:۱۹۹ ) ’’اﷲ نے جو کچھ تم پر حرام کیا ہے۔ اُس کو وہ تمھارے لیے مفصل بیان کرچکا ہے۔‘‘ لہٰذا جب محرمات کی تفصیل میں یہ مذکور نہیں ہے تو حلال ہے۔ابن حزمؒ نے محلّی میں اس راے کو پورے دلائل کے ساتھ بیان کیا ہے، اور سند کے ساتھ یہ بھی بتایا ہے کہ حسن بصریؒ،عمرو بن دینارؒ اور مجاہدؒ اس کی اباحت کے قائل تھے، اور عطائ ؒ اس کو صرف مکروہ سمجھتے تھے۔({ FR 1560 })علامہ آلوسیؒ نے روح المعانی میں امام احمد بن حنبلؒ کی یہ راے نقل کی ہے کہ ’’یہ فعل عند الضرورت اسی طرح جائز ہے جیسے فصد اور پچھنے۔‘‘({ FR 1561 }) لیکن مجھے فقہ حنبلی کی کسی مستند کتاب میں یہ فتویٰ نہیں ملا۔
۲۔ یہ کہ وہ حرام ہے۔ لیکن اگر زنا کے فتنے میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہو اور آدمی اس سے بچنے کے لیے اس طریقے سے شہوت کی تسکین کرلے تو اُمید ہے کہ اُسے عذاب نہ دیا جائے گا۔یہ راے حنفیہ کی ہے۔چنانچہ ردالمحتار میں تصریح ہے کہ یہ فعل حرام اور مستلزمِ عذاب ہے،اِلاّ یہ کہ اگر زنا کے اندیشے سے کوئی اس کا ارتکاب کرے تو يُرْجَى أَنْ لَا وَبَالَ عَلَيْهِ({ FR 1478 })۔ اسی کے قریب علامہ آلوسیؒ نے ابن ہمام کا قول نقل کیاہے({ FR 1562 }) اور اسی سے ملتی جلتی راے علامہ ابن عابدینؒ نے فقیہ ابوا للیثؒ سے نقل کی ہے۔({ FR 1563 })اس راے کے حق میں کوئی خاص نص نہیں ہے،بلکہ یہ اسلام کے اُصو ل عامہ سے مستنبط کی گئی ہے،مثلاً حالت اضطرار میں حرام شے کے استعمال کی اجازت اور دو ناجائز کاموں کے ناگزیر ہوجانے کی صورت میں کم تر درجے کے ناجائز کو اختیارکرنے کا قاعدہ۔
۳۔ یہ کہ وہ قطعاًحرام ہے۔امام شافعی({ FR 1564 }) اور امام مالکؒ کی یہی راے ہے،اور وہ سورۂ المؤمنون کی اس آیت سے استدلال کرتے ہیں :
وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حٰفِظُوْنَo اِلَّا عَلٰٓي اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَيْرُ مَلُوْمِيْنَo فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَاۗءَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْعٰدُوْنَ o ( المؤمنون:۵-۷)
’’اور جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ، بجز اپنی بیویوں کے اور ان عورتوں کے جو ان کی ملک یمین میں ہوں ،کہ(ان سے پرہیز نہ کرنے میں )وہ قابل ملامت نہیں ہیں ۔ پھر جو اس کے ماسوا کوئی اور راہ(قضاے شہوت کی) تلاش کرے تو ایسے ہی لوگ زیادتی کرنے والے ہیں ۔‘‘
اس آیت سے وہ استدلال کرتے ہیں کہ منکوحہ بیوی اور ملک یمین میں آئی ہوئی لونڈی کے سوا تسکینِ شہوت کی تمام صورتیں ازروے قرآن حرام ہیں ، خواہ وہ زنا ہو یا استمنا بالید، یا عملِ قوم لوط یا وطیِ بہائم، یا کچھ اور۔ پھر اسی کی تائید یہ احادیث بھی کرتی ہیں :
نَاکِحُ الْیَدِ مَلْعُونٌ ۔({ FR 1479 }) ’’اپنے ہاتھ سے نکاح کرنے والا ملعون ہے۔‘‘
عَذَّبَ اللّٰہُ تَعَالیٰ أُمَۃً کَاَنُوا یَعْبَثُونَ بِمْذَا کِیْرِھِمْ۔({ FR 1480 })
’’اﷲ نے ایسے لوگوں کو عذاب دیا جو اپنے اعضاے جنسی سے کھیلتے تھے۔‘‘
یہ دونوں حدیثیں علامہ آلوسیؒ نے روح المعانی میں نقل کی ہیں ۔ابن کثیرؒ نے اس آیت کی تفسیر میں ایک اور حدیث نقل کی ہے، مگر ساتھ ہی یہ تصریح بھی کردی ہے کہ یہ حدیث غریب ہے،نیز اس کی سند میں ایک راوی غیر معروف ہے۔
سَبْعَةٌ لَا يَنْظُرُ اللَّهُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَا يَجْمَعُهُمْ مَعَ العاملین، وَيُدْخِلُهُمُ النَّارَ أَوَّلَ الدَّاخِلِينَ إِلَّا أَنْ يَتُوبُوا ومن تاب تاب الله عليه الناكح يَدِهِ، وَالْفَاعِلُ وَالْمَفْعُولُ بِهِ، وَمُدْمِنُ الْخَمْرِ، وَالضَّارِبُ وَالِدَيْهِ حَتَّى يَسْتَغِيثَا، وَالْمُؤْذِي جِيرَانَهُ حَتَّى يَلْعَنُوهُ، وَالنَّاكِحُ حَلِيلَةَ جَارِهِ...({ FR 1565 })
’’سات آدمی ہیں جن کی طرف اﷲ قیامت کے رو زنظر نہ فرمائے گا، اورنہ انھیں پاک کرے گا، اور انھیں دوسرے لوگوں کے ساتھ جمع کرے گا، اور سب سے پہلے دوزخ میں داخل ہونے والوں میں شامل کرے گا،اِلاّ یہ کہ وہ توبہ کرلیں ، اور جو توبہ کرے اﷲ اُسے معاف کردیتا ہے:(۱) اپنے ہاتھ سے نکاح کرنے والا(۲)عمل قوم لوط کرنے والا(۳) یہ فعل کرانے والا(۴) عادی شراب خور(۵) اپنے والدین کو مارنے والا یہاں تک کہ وہ فریا دکریں (۶) اپنے ہمسایوں کو ستانے والا یہاں تک کہ وہ اس پر لعنت کریں (۷)اپنے ہمساے کی بیوی سے بدکاری کرنے والا۔‘‘
ان مختلف مسلکوں اور ان کے دلائل پر نگاہ ڈالنے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ پہلا مسلک نہایت کمزور بلکہ غلط ہے۔ اس لیے کہ قرآن میں حرام چیزوں کی تفصیل بیان ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ سب حرام چیزوں کو نام بنام بیان کیا گیا ہو، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن میں حرام وحلال کے کلی اُصول بیان کردیے گئے ہیں ۔پس ہر و ہ چیز جو قرآن کے بیان کردہ کسی کلیے کے تحت آتی ہو،اُس پر وہی حکم جاری ہوگا جو کلیے میں ارشاد ہوا ہو،الایہ کہ اس کو مستثنیٰ قرار دینے کے لیے کوئی دلیل موجود ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ جب قرآن یہ عام قاعدہ بیان کرچکا ہے کہ بیویوں اور مملوکہ عورتوں کے سوا قضاے شہوت کے تمام طریقے عدوان ہیں ،تو اس سے نکاح بالید کے مستثنیٰ ہونے کی آخر دلیل کیا ہے؟اس کے جواب میں بعض لوگوں نے یہ دلیل پیش کی ہے کہ’’عرب میں اس فعل کا کوئی رواج نہ تھا، نہ کلام عرب میں اس کا کوئی ذکر ہے، لہٰذا فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَاۗءَ ذٰلِكَ (المؤمنون:۷ ) میں یہ داخل نہیں ہے۔‘‘ لیکن یہ دلیل دو وجوہ سے غلط ہے:ایکؔ یہ کہ لغت عرب میں اس کے لیے جلد عمیرہ اورخَضْخَضَہْ کے الفاظ موجود ہیں اور زبان میں کسی لفظ کا موجود ہونا اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ اہل زبان اس تصور سے آشنا تھے۔دوسرےؔ یہ کہ اگر عرب اس سے واقف نہ تھے تو خداتو انسانوں کے سب افعال سے واقف تھا۔اُس کے بیان کردہ کلیات صرف انھی جزئیات تک آخر کیسے محدود ہوجائیں گے جن سے اُس زمانے کے عرب واقف ہوں ۔
ان دلائل کی بِنا پر صحیح مسلک یہی ہے کہ یہ فعل حرام ہے۔البتہ عقل یہ حکم لگاتی ہے کہ اس کی حرمت زنا، اور عمل قوم لوط، اور وطیِ بہائم کی بنسبت کم تر ہے۔اس لیے اگرکسی شخص کو ان گناہوں میں سے کسی ایک میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہو اور اُس سے بچنے کے لیے وہ اپنے جو ش طبع کی تسکین اس ذریعے سے کرلے تو اُس کے حق میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ’’شاید اﷲ تعالیٰ اُسے سزانہ دے۔‘‘
اب اس خاص شخص کا مسئلہ لیجیے جس کے بارے میں سوال کیا گیا ہے۔اس کوپہلے تو میں اﷲ تعالیٰ کی یہ نصیحت یاد دلائوں گا کہ
وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ نِكَاحًا حَتّٰى يُغْنِيَہُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ ({ FR 1649 }) (النور:۳۳)
پھر میں اُس سے صاف کہوں گا کہ تمھارے معاملے میں وہ حالت ہرگز موجود نہیں ہے جسے تم ایک حرام چیز کو حلال کرنے کے لیے معذرت کے طو رپر پیش کررہے ہو۔ تم محض اپنے خاندان کے خوف سے نکاح نہیں کرتے،حالاں کہ اس خاندان نے ایک جوان آدمی کو ایک کم سن لڑکی کے ساتھ منسوب کرکے اپنی نادانی کا پورا پورا ثبوت دے دیا ہے۔ اب اگر نکاح کے مواقع پاتے ہو مگر خاندان کی ناراضی سے ڈر کر نہیں کرتے تو خواہ تم کوئی سا گناہ بھی کرو،خدا کے ہاں ضرور ما ٔخوذ ہوگے،کیوں کہ حقیقی مجبوری تمھیں کوئی نہیں ہے،حجتیں ڈھونڈنے کے بجاے سیدھی طرح فیصلہ کرو کہ خوف کا مستحق کون زیادہ ہے؟ خدا یا خاندان؟
(ترجمان القرآن۔، اکتوبر،نومبر۱۹۵۲ء)
عورت اور عورت کا جنسی اختلاط
سوال ۶۹۹: ان دنوں زنانہ کالجوں کی مسموم فضا میں لڑکیوں کے اندر عجیب وبائیں پھیل رہی ہیں ۔بالعموم دو لڑکیوں کی دوستی خلوص اور محبت کی حدوں سے گزر کر جنسی محبت کی صورت اختیار کرجاتی ہے۔ شرعاً یہ کس درجے کا گناہ ہے؟کبیرہ یا صغیرہ؟
جواب: مرد اور مرد کی جنسی محبت جتنا بڑا گناہ ہے،عورت اور عورت کی محبت بھی اتنا ہی بڑا گناہ ہے۔ اخلاقی حیثیت سے ان دونوں میں نہ نوعیت کا فرق ہے اور نہ درجے کا۔افسوس ہے کہ یہ نام نہاد ’’ادب لطیف‘‘ جو رسالوں اور افسانوں اور ناولوں کی شکل میں گھر گھر پہنچ رہا ہے، اور یہ فحش تصویریں اور فلم جنھیں آزادی کے ساتھ مردوں کی طرح عورتیں بھی دیکھ رہی ہیں ،اور یہ عشق آموز گانے جو ریڈیو کی برکت سے بچے بچے کی زبان پر چڑھ رہے ہیں ،اوریہ اختلاطِ مرد وزن جس کو روز بروز ہماری سوسائٹی میں فروغ نصیب ہورہا ہے،ان ساری چیزوں نے مل جل کر نوجوان مردوں کی طرح نوجوان لڑکیوں کو بھی غیر معمولی جذباتی ہیجان میں مبتلا کردیا ہے۔شہوانی جذبات کی ایک بھٹی ہے جو سینوں میں بھڑکا دی گئی ہے اور بہت سی دھونکنیاں ہر آن اسے زیادہ اور زیادہ بھڑکانے میں لگی ہوئی ہیں ۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو بگاڑ اب تک زیادہ تر مردوں میں پایا جاتا تھا، وہ ایک وبا کی طرح شریف گھروں کی لڑکیوں اور درس گاہوں کی طالبات اور استانیوں میں بھی پھیلنا شروع ہوگیا ہے۔جن خواتین کو زنانہ درس گاہوں کے حالات قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے،اُن کی اطلاع یہ ہے کہ آج لڑکیوں میں جو بے حیائی، بے باکی، جنسی مسائل پر کھلی کھلی گفتگو کرنے کی جرأت اور جنسی رجحانات فطری اور غیر فطری،ہر دو طرح کے رجحانات کے اظہار واعلان کی عام جسارت پائی جاتی ہے،چند سال پہلے تک اس کا تصور کرنا مشکل تھا۔اب لڑکیوں میں یہ چرچے عام ہورہے ہیں کہ کون سی صاحب زادی کس استانی کی منظور نظر ہیں ،اور کون سی صاحب زادی کس دوسری صاحب زادی کے عشق میں مبتلا ہیں ۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ!
لطف یہ ہے کہ اس جہنم کی طرف جو لوگ اپنی قوم کو دھکیل رہے ہیں ،وہ اپنی اب تک کی کوششوں کے نتائج سے بھی مطمئن نہیں ہیں ۔انھیں حسرت یہ ہے کہ کاش ملا کی مخالفت ومزاحمت راہ میں حائل نہ ہوتی تو وہ ترقی کے مزید قدم ذرا جلدی اُٹھا سکتے! (ترجمان القرآن، جون،جولائی۱۹۵۲ء)