استنجا کے لیے پانی کا استعمال

,

(۱)امریکہ سے مجھے ایک مسلم نوجوان طالب علم نے لکھا ہے کہ وہاں ’ضرورت‘ سے فارغ ہونے کے بعد طہارت کے لیے پانی کےبجائے صرف کاغذ ہی استعمال کیاجاتا ہے۔ تو کیا اس طریقے سے طہارت کے بعد وضو کرکے نماز پڑھی جاسکتی ہے؟میں نے جواب میں ان کو لکھا تھا کہ اگر وہ کاغذ خاص قسم کا ہے جس کے استعمال سے نجاست صاف ہوجاتی اور طہار ت کا منشاپورا ہوجاتاہے توپھر ایسے کاغذ سے طہارت حاصل ہونی چاہیے۔ یہ جواب تو میں نے دے دیا لیکن مجھے یہ معلوم نہیں ہے کہ آیا فقہ میں طہارت کے لیے پانی کے استعمال کو لازم گردانا گیا ہے یا کسی اور ذریعے سے بھی پاکی حاصل کرنے کی گنجائش موجود ہے؟

جواب

آپ نے جواب ٹھیک دیا ہے۔ جو کاغذ طہارت حاصل کرنے ہی کی غرض سے بنایا جاتا ہے اوراس سےنجاست دور بھی ہوجاتی ہے اس سے پاکی حاصل کرنا درست ہے۔ پیشاب، پاخانے کے بعد طہارت حاصل کرنے کے لیے پانی کااستعمال لازمی نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں پانی کی کمی کی وجہ سے استنجا کے لیے عام طورسے پتھر اور کلوخ استعمال کیے جاتے تھے۔ خود حضورؐ نے بھی پاکی حاصل کرنے کے لیے پتھر استعمال فرمائے ہیں۔ فقہائے احناف کے نزدیک پانی کے علاوہ دوسری پاک چیزوں سے بھی طہارت حاصل کی جاسکتی ہے۔ فقہ حنفی کی مشہور ومستند کتاب بدائع الصنائع میں ہے اَلسُّنَّۃُ ھُوَ الْاِسْتِنْجَاءُ بِالْاَشْیَاءِ الطَّاھِرَۃِ مِنَ الْاَحْجَارِ وَالْاَمْدَارِ وَالتُّرَابِ وَالْخَرَقِ البَوَالِیْ ’’سنت یہ ہے کہ پاک چیزوں سے استنجا کیاجائے، جیسے پتھر،مٹی کے ڈھیلے،مٹی اورپرانے کپڑے کے ٹکڑے۔‘‘

مثال میں پرانےٹکڑوں کاذکر اس لیے نہیں ہے کہ نئے کپڑے کے ٹکڑوں سے طہارت حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس لیے ہے کہ نئے ٹکڑوں کو گندہ کرکے برباد کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یورپ وامریکہ میں طہارت ہی کے لیے مخصوص کاغذ سے پاکی حاصل کرنے کے بعد وضو کرکے بلاکراہت نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ البتہ نظافت کے لیے قیام گاہ پہنچ کر پانی سےبھی استنجا کرلینا بہتر ہے۔

(دسمبر۱۹۶۸ء، ج ۴۱،ش۶)