اسرائیلی ریاست کے حق میں ایک عجیب استدلال

’’سورۂ بنی اسرائیل آیت ۱۰۴ کے متعلق صدق جدید (لکھنؤ) میں مولانا عبد الماجد دریا بادی نے ’’سچی باتیں ‘‘ کے زیر عنوان یہ تشریح کی ہے کہ اس میں وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ سے مراد یَومُ الٰاخِرَۃِ نہیں ہے بلکہ قیامت کے قریب ایک وقت موعود ہے اورجِئْنَا بِکُمْ لَفِیْفًا سے مراد بنی اسرائیل کے مختلف گروہوں کو ایک جگہ اکٹھا کر دینا ہے۔ اس کے بعد وہ فرماتے ہیں کہ ’’مطلب واضح ہے۔ یعنی اسرائیلیوں کو بعدِ واقعۂ فرعون ہی خبر دے دی گئی تھی کہ اب تو تم آزاد ہو، دنیا میں جہاں چاہو رہو بسو، البتہ جب زمانہ قربِ قیامت کا آجائے گا تو ہم تم کو مختلف سمتوں سے، مختلف ملکوں سے، مختلف زبانیں بولتے ہوئے، مختلف وضع و لباس اختیار کیے ہوئے، سب کو ایک جگہ جمع کر دیں گے۔ اور وہ جگہ اور کون سی ہوسکتی ہے بجز ان کے قدیم وطن ملک فلسطین کے۔ آج جوارضِ فلسطین میں یہود کا اجتماع ہر ہر ملک سے ہو رہا ہے کیا یہ ایسی غیبی پیش خبری کا ظہور نہیں ؟‘‘ یہ نتیجہ جو مولانا نے اس آیت سے نکالا ہے، مجھے ڈر ہے کہ یہ فلسطین کے متعلق عام جذبۂ جہاد کو ٹھنڈا کردے گا۔ کیونکہ اس کو مان لینے کے بعد تو فلسطین میں اسرائیلی ریاست کا قیام عین منشاے خداوندی سمجھا جائے گا۔
جواب

آیت مذکورہ بالا کی اس تشریح کو دیکھ کر تعجب ہوا۔ آیت کے الفاظ تو صرف یہ ہیں کہ:
وَّقُلْنَا مِنْۢ بَعْدِہٖ لِبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اسْكُنُوا الْاَرْضَ فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيْفًا ( بنی اسرائیل:۱۰۴)
’’اور اس کے بعد (یعنی فرعون کی غرقابی کے بعد) ہم نے بنی اسرائیل سے کہا کہ زمین میں رہو بسو، پھر جب آخرت کے وعدے کا وقت آئےجائے گا تو ہم تم کو اکٹھا کر لائیں گے۔‘‘
ان الفاظ میں ’’قربِ قیامت کے وقتِ موعود اور بنی اسرائیل کے وطنِ قدیم میں یہودیوں کے مختلف گروہوں کو ملک ملک سے لا کر جمع کر دینے‘‘ کا مفہوم آخر کہاں سے نکل آیا۔ وَعْدُ الْاٰخِرَۃ کا سیدھا اور صاف مطلب آخرت کا وعدہ ہے نہ کہ قیامت کے قریب زمانے کا کوئی وقتِ موعود۔ اور سب کو اکٹھا کر لانے یا جمع کر لانے سے مراد قیامت کے روز جمع کرنا ہے۔ اس میں کوئی اشارہ تک اس بات کی طرف نہیں ہے کہ اسی دنیا میں بنی اسرائیل کو ایک جگہ جمع کیا جائے گا۔ اس پر مزید ستم یہ ہے کہ ’’ایک جگہ جمع کرنے‘‘ کے تصور کو آیت کے الفاظ میں داخل کرنے ہی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ یہ بھی طے کر دیا گیا کہ وہ جگہ ’’اسرائیلیوں کے وطنِ قدیم‘‘ کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ یہ تو بعینہٖ یہودیوں کے اس دعوے کی تائید ہے کہ دو ہزار برس تک فلسطین سے بے دخل رہنے کے باوجود اس پر ان کا حق فائق ہے کیونکہ وہ ان کا وطنِ قدیم ہے، اور اب دو ہزار برس سے یہ ملک جن لوگوں کا حقیقت میں وطن ہے ان کے مقابلے میں برطانیا اور روس اور امریکا نے نہیں ، بلکہ خود اللّٰہ تعالیٰ نے اس سرزمین پر یہودیوں کے حقِ سکونت کو فائق قرار دے کر انھیں ہر ملک سے وہاں جمع کروایا ہے۔ اس طرح تو اسرائیلی ریاست کا قیام اللّٰہ تعالیٰ کے ایک وعدے کا نتیجہ قرار پاتا ہے نہ کہ دنیا کی ظالم قوموں کی ایک سازش کا۔ حالانکہ آیت کے الفاظ میں اس مفہوم کے لیے قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔ (ترجمان القرآن جون۱۹۷۶ء)