اسلامی اُصولوں پر بنکنگ کی ایک اسکیم

اسلامی اُصولوں پر ایک غیر سودی بنک چلانے کے لیے ایک اسکیم بھیجی جارہی ہے۔ اس کو ملاحظہ فرما کر ہماری راہ نمائی کیجیے کہ کیا شرعاً یہ اسکیم مناسب ہے؟یا اس میں کسی ترمیم واضافہ کی ضرورت ہے؟ اسکیم کا خلاصہ مسلما ن زمیں دار،تجار اور اہل حرفہ مدتوں سے ساہوکاروں کے پنجے میں پھنستے جارہے ہیں اور۲۵،۲۵ فی صدی تک سود ادا کرتے کرتے تباہ ہورہے ہیں ۔بڑے تاجر اور زمیں دار تو خیر بری بھلی طرح پنپ بھی رہے ہیں لیکن کم استطاعت مسلمانوں کا حال سودی قرضوں نے بہت ہی پتلا کردیا ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ ایک مسلم بنک مسلمانوں کو غیر سودی قرض دینے اور زکاۃکی وصولی کا انتظام کرنے کے لیے قائم ہو۔ ابتداء ً ایک ضلع میں اس کا تجربہ کیا جائے اور پھر ملک بھرمیں اسے پھیلا دیا جائے۔مجوزہ بنک کے لیے ذیل میں چند اُصول ومبادی درج کیے جاتے ہیں : (۱) یہ بنک قانونِ شریعت کا پورا پورا پابند ہوگا اور مفرد اور مرکب ہر طرح کے سود سے دامن پاک رکھ کے کاروبار کرے گا۔ اس بنک سے حاجت مند مسلمانوں کو جائدادی کفالتوں پر اور تجارت پیشہ لوگوں کو مضاربت کے اُصولوں پر کاروبار چلانے کے لیے سرمایہ فراہم کیا جائے گا۔قرض دارکو ازرُوئے معاہدہ اس امر کا پابندہونا پڑے گا کہ وہ اپنے اموال اور کاروباری سرماے پر ایک خاص عرصے تک باقاعدگی سے بنک کو زکاۃادا کرے۔اس طریقے سے ایک تو بلا سود سرمایہ حاصل کرکے مسلمان تاجر یا صناع اپنا کاروبار بخوبی چلا سکے گا اور اپنے سرماے پر سود ادا کرنے والے غیر مسلم حریفوں کا بخوبی مقابلہ کرنے کے قابل ہوجائے گا، اور دوسری طرف نظامِ زکاۃ کے احیا میں وہ حصہ دار بنے گا جس کے مٹ جانے کی وجہ سے ہمارے عوام کی غریبی اور بے روزگاری لاعلاج ہوکے رہ گئی ہے۔ (۲) یہ بنک چوں کہ بہت ہی سادہ اور پاکیزہ طریق پر عوام سے معاہداتی معاملہ کرے گا،اس لیے یہ بآسانی ممکن ہے کہ حکومت سے قانونی طور پراس کی توثیق کرا لی جائے۔ضرورت ہوتو اسمبلی میں بل پیش کیا جاسکتا ہے۔پہلے زکاۃ کی جبری وصولی کے لیے ایک دفعہ حکومت کے سامنے سوال اُٹھایا گیا تھا تو یہ اس وجہ سے نامنظور ہوا تھا کہ اس سے مسلمانوں کی ’’متوازی‘‘حکومت قائم ہوتی ہے ۔لیکن ہماری تجویز کے مطابق زکاۃ کی جبری وصولی اس معاہدے کے زیر اثر ہوگی جو بنک اپنے مقروض سے طے کرے گا۔کوئی حکومت معاہداتی معاملات کی تصدیق سے انکار نہیں کرسکتی۔ (۳)یہ بنک زکاۃ اور دوسرے صدقات کی منظم وصولی کا فریضہ بھی اپنے ذمے لیتا ہے۔انفرادی طورپر زکاۃ تقسیم کردینا ایک ناقص طریقہ ہے۔ شریعت اس کا اجتماعی نظم چاہتی ہے۔لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ مسلم پریس اور پلیٹ فارم کو ہماری اس تجویز کی پوری پوری پشت پناہی کرنی چاہیے۔ (۴) اس بنک کا منظور شدہ اور ادا شدہ سرمایہ کم ازکم۵ لاکھ روپے ہوگا جو دس دس روپے کے پچاس ہزار حصص پر مشتمل ہو گا۔۴لاکھ کا سرمایہ مناسب صنعتی کاروبار میں لگا کر کم از کم ۶فی صدی سالانہ منافع حاصل کیا جاسکے گا۔بقیہ ایک لاکھ ادنیٰ طبقے کے مسلمان کاری گروں اور پیشہ وروں کو قرضہ دینے کے لیے مخصوص کردیا جائے گا۔ اور ابتداء ً قلّت ِ سرمایہ کی وجہ سے قلیل مدت کے لیے قرضے جاری کیے جائیں گے۔ انتظامی مصارف کو تجارتی سرمایے کے منافع کے ۲۵فی صدی یعنی چھ ہزار روپیا سالانہ کے اندر اندر پورا کیا جائے گا۔ اخراجات کا تخمینہ حسب ذیل ہے: ایک منیجر ۲۰۰روپے ماہوار ۲۴۰۰سالانہ ایک اکائونٹنٹ ۱۰۰روپے ماہوار ۱۲۰۰ سالانہ ایک اسٹینو گرافر ۵۰روپے ماہوار ۶۰۰ سالانہ دوکلرک ۳۰روپے ماہوار ۷۲۰سالانہ دوچیراسی ۲۰روپے ماہوار ۴۸۰سالانہ متفرق مصارف ۱۲۰الانہ میزان: ۶۰۰۰ روپے سالانہ پہلے سال چند ہزار روپے فرنیچر، ٹائپ مشینوں اور آہنی الماریوں وغیرہ پر بھی صرف ہوں گے۔اس لیے چار لاکھ کے کاروباری سرمایے پر متوقع۲ فی صدی منافع میں سے۶فی صدی الگ کرکے بھی ہم۴ فی صدی حصے داروں میں تقسیم کر سکیں گے، اور اگر ان’’ امانتوں ‘‘ کا منافع بھی محسوب کیا جائے جو ہمارے بنک کے حوالے کی جائیں گی، تو یقیناً حصے داروں کو زیادہ منافع ملے گا۔ زکاۃ کی رقم کو ٹھیک ٹھیک شرعی مصارف پر صرف کیا جائے گا اور دوسرے صدقات بھی مسلمان عوام کی بہبود کے لیے ڈائرکٹروں کی ’’شوریٰ‘‘ کے مشورے سے خرچ کیے جائیں گے۔ڈائرکٹروں کی تجویز کے مطابق منافعوں کا ایک مناسب حصہ فلاحِ عامہ کے فنڈ میں بھی شامل ہوتا رہے گا۔’’شوریٰ‘‘ صرف ایسے اصحاب پر مشتمل ہوگی جو بااثر ہوں اور مختلف طبقات کے مفاد کی نمائندگی کرسکیں ۔ (۵) بنک اس کامجاز ہوگا کہ میعادی امانتوں (fixed deposits) کی جو رقمیں اس کے پاس ہوں ،انھیں صنعتی،تجارتی اور زرعی بیوپاروں میں لگا کر منافع حاصل کرے۔ایسے منافع میں سے ایک حصہ امانت داروں کو تقسیم کردیا جائے گا تاکہ لوگوں میں ہمارے پاس امانتیں رکھوانے کی طرف رغبت پیدا ہو۔ ہمارے بنک کے امتیازات یہ ہوں گے کہ: ا۔ اس کی اساس لوٹ کھسوٹ کی خواہش پر نہیں بلکہ خدمت اور تعاون کے جذبے پر ہوگی اور اس وجہ سے اس کی کشش ہر اس شخص کے لیے ہے جو نفع اندوزی کی جگہ خدمت کرنا چاہے،خواہ وہ ہندو ہو یا مسلم۔ ب۔ یہ بنک ان لوگوں سے بھی زکاۃ جمع کرنے کی کوشش کرے گا جو بنک کے مقروض نہ ہوں ، مگر زکاۃ کو اجتماعی نظم کے ساتھ اداکرنا چاہیں ۔ ج۔ ’’میعادی امانتوں ‘‘پر یہ بنک سودنہیں دے گا بلکہ اس کے بجاے ان امانتوں کو کاروبار میں لگا کر منافع حاصل کرے گا اور اس کاحصہ امانت داروں کو دے گا۔
جواب

غیر سودی بنک کی یہ تجویزبجاے خود تو بہت مبارک ہے اور میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ اس کا تجربہ ضرور کیجیے۔ لیکن میری راے یہ ہے کہ اس کاروبار کو زکاۃ وصدقات کے ساتھ خلط ملط کردینا مناسب نہیں ہے۔کاروباری ادارہ لازماً کاروباری نوعیت ہی کی فکر،صلاحیت اور مصروفیت چاہتا ہے،اورخیراتی ادارہ بالکل ایک دوسرے طرز کی فکر،صلاحیت اور مصروفیت کاطالب ہے۔ ان دونوں چیزوں کوخلط ملط کردینے سے اندیشہ ہے کہ یا تو خیرات کا پہلو نقصان اُٹھائے گا یا کاروبار کاپہلو۔ لہٰذا اگر آپ زکاۃ وصدقات کی تنظیم چاہتے ہیں تو اس کے لیے الگ انتظام سوچیے اور اس غرض کے لیے ایک مستقل ادارہ بنایئے۔ جہاں تک اس کے انتظامی مصارف کا تعلق ہے ،اس کا سوال شریعت نے خود ہی پہلے سے حل کررکھا ہے۔زکاۃ کی تحصیل اور خرچ کا انتظام کرنے والوں کو شرعاً مالِ زکاۃ سے تنخواہیں لینے کا حق ہے۔
بنک کے کام میں زکاۃ وصدقات کی وصولی اور خرچ کو شامل کردینے سے ایک خطر ہ یہ بھی ہے کہ زکاۃ دینے والے بنک میں اپنی زکاۃ اس لالچ سے داخل کرائیں گے کہ وہاں سے ان کو قرضے حاصل کرنے میں آسانی ہو اور یہ اس ذہنیت کے بالکل خلاف ہے جس کے تحت ایک مسلمان کو زکاۃ دینی چاہیے۔
بنک کے لیے تو مناسب صورت یہی ہے کہ اس کو بالکل کاروباری اغراض کے لیے کاروباری طریقوں پر چلایا جائے۔مختصراً اس کے اُصول حسب ذیل ہونے چاہئیں :({ FR 1440 })
(۱) اس کا سرمایہ دو طریقوں سے حاصل ہو۔ایک شرکا کے حصص(shares)، دوسرے ان لوگوں کی امانتیں (deposits) جو سود نہیں لینا چاہتے۔
(۲)وہ تین قسم کے کام کرے:ایک مختلف صنعتی اور تجارتی کاموں کو سرمایہ فراہم کرنا اور’’حصہ داری‘‘ کے اُصول پر ان کے منافع میں سے اپنا متناسب حصہ وصول کرلینا۔دوسرے بنک کاری کی وہ ساری جائز خدمات انجام دیناجو آج کل بنک عموماً انجام دیا کرتے ہیں ، اور ان کی فیس وصول کرنا۔ تیسرے حاجت مند لوگوں کو قابلِ اطمینان ضمانتوں یا جائداد کی کفالتوں پر غیر سودی قرض دینا۔ اور اسی طرح تاجروں کی ہنڈیاں بلا سود بھنانا اور ان کو کم مدت کے قرضے بلاسود دینا۔
(۳)ان میں سے پہلی دو مدّوں سے جو آمدنی حاصل ہو ،وہ بنک کے انتظامی مصارف نکالنے کے بعد حصہ داروں اور امانت داروں ،دونوں قسم کے لوگوں میں متناسب طریقے پر تقسیم کردی جائے۔
(۴) اس بنک میں روپیا رکھوانے اور اس کے حصص خریدنے کے لیے تین محرک کافی ہیں :ایک سود سے بچنے کی خواہش، دوسرے حلال منافع حاصل کرنے کی توقع،تیسرے اپنے مال کے تحفظ کا اطمینان۔ (ترجمان القرآن ، جولائی ۱۹۴۶ء)