جواب
یہ دیکھ کر مجھے بھی بہت خوشی ہوئی کہ مولانا حسین احمد صاحب مرحوم کم ازکم ہندستان کی موجودہ حکومت کو تو دارالاسلام قرار نہیں دیتے اور وہاں کی موجودہ حکومت کے ’’شرم ناک‘‘ کاموں سے انھوں نے اظہارِ براء ت فرمایا ہے۔ لیکن جیسا کہ آپ نے بھی محسوس کیا ہے، ان کی کتاب ’’نقش حیات‘‘ کی ایک دو نہیں ،متعدد عبارتیں ایک بہت ہی گمراہ کن نظریہ پیش کرتی ہیں ۔ اس لیے ایک مجمل تردید یا استدراک کے بجاے اس نظریے کی مفصل تردید اور اس سے کلی براء ت کی ضرورت ہے۔ مولانا مرحوم حضرت سیّد احمد شہید ؒ کے جہاد کا مقصد یہ بتاتے ہیں کہ بس ہندستان اس بدیشی قوم(انگریز ) کے مظالم سے پاک ہوجائے اور ’’اس کے بعد ہندو اور مسلمان مل کر بادشاہت کے لیے جس کو مناسب سمجھیں ، منتخب کریں ۔‘‘ حالاں کہ اس کے ثبوت میں حضرت شہیدؒ کے جس خط کو وہ پیش کرتے ہیں ،وہ ہندو مسلمانوں کی مشترک حکومت کے تخیل سے بالکل خالی ہے۔ پھر وہ حضرت شاہ عبدالعزیز ؒ کی عبارات کا،جنھیں خود انھوں نے نقل کیا ہے،بالکل الٹا مطلب نکالتے ہیں کہ ’’اگر کسی ملک میں سیاسی اقتدار اعلیٰ کسی غیر مسلم جماعت کے ہاتھوں میں ہو لیکن مسلمان بھی بہرحال اس اقتدار میں شریک ہوں او ران کے مذہبی ودینی شعائر کا احترام کیا جاتا ہو تو وہ ملک حضرت شاہ صاحب کے نزدیک بے شبہ دارالاسلام ہوگا، اور ازروے شرع مسلمانوں کا فرض ہوگا کہ وہ ا س ملک کو اپنا ملک سمجھ کر اس کے لیے ہر نوع کی خیر خواہی اور خیر اندیشی کا معاملہ کریں ۔‘‘ اس پر بھی وہ بس نہیں کرتے بلکہ ایک عجیب وغریب دعویٰ کرتے ہیں کہ سلطنت مغلیہ کے دورِ زوال میں جن علما نے بھی اصلاح احوال کی کوشش کی ’’ان کا مقصد ملک کی خوش حالی،امن وامان، سکون و اطمینان، ظلم وجور کی بیخ کنی، اور خلق خدا کی عام رفاہیت وبہبودی تھا، ان کو اس سے کوئی دل چسپی نہیں تھی کہ حکومت مسلمان کی ہو یا غیر مسلم کی۔‘‘ اس سے آگے بڑھ کر انتہائی گمراہ کن بات جو انھوں نے لکھی ہے، اور غضب یہ ہے کہ حضرت سیّد احمد شہیدؒ کی طرف بالکل غلط طور پر منسوب کرکے لکھی ہے، وہ یہ ہے:
’’ اعلاے کلمۃ اﷲ کا ذریعہ صرف یہی نہیں ہے کہ ایک ’’فرقہ وار‘‘گورنمنٹ قائم کی جائے اور خود حاکم بن کر دوسرے برادران وطن کو اپنا محکوم بنایا جائے ،بلکہ اس کا سب سے زیادہ مؤثر طریقہ یہ ہے کہ برادرانِ وطن کو سیاسی اقتدار میں اپنا شریک کرکے اسلامی فضائل اخلاق سے ان کے دلوں کو فتح کیا جائے۔‘‘ ({ FR 2282 })
یہ عبارت سرے سے اسلامی حکومت کے تخیل ہی کی جڑ کاٹ دیتی ہے اور ایک ایسا نظریہ پیش کرتی ہے جو اسلامی نظریۂ ریاست کی بالکل ضد ہے۔اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ جہاں مسلم اور غیر مسلم ملے جلے آباد ہوں ،وہاں اسلام کی حکومت قائم کرنا اگر غلط نہیں تو مرجوح طریقہ ضرور ہے۔ایسی حکومت کو مولانا اسلامی حکومت کہنے کے بجاے بار بار ایک’’فرقہ وار حکومت‘‘ کے نام سے یاد فرماتے ہیں ،اوربرادران وطن کو محکوم بنا کر خود حاکم بن جانا ان کی نگاہ میں اگر زیادتی نہیں تو کم ازکم نامناسب تو ہے ہی۔ وہ اعلاے کلمۃ اﷲ کے لیے افضل اور اولیٰ طریقہ اس کو سمجھتے ہیں کہ مسلم اور غیر مسلم کی مشترک حکومت بنائی جائے، جوبہرحال اسلامی حکومت نہ ہوگی،اور صرف فضائل اخلاق سے غیر مسلموں کا دل موہنے کی کوشش کی جائے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خلافت راشدہ کی پوزیشن پھر کیا ہے،جس میں غیر مسلموں کی آبادی۸۰-۹۰ فی صد سے کم نہ تھی،مگر اس کے باوجود ’’فرقہ وار گورنمنٹ‘‘ قائم کرکے مسلمان خود حاکم بن بیٹھے تھے،اور غیر مسلموں کو سیاسی اقتدار میں شریک کرنے کے بجاے اپنا محکوم انھوں نے بنالیا تھا؟بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ اس کی زد خود نبیﷺ پر بھی پڑتی ہے جنھوں نے ’’برادرانِ وطن‘‘ کو اقتدار میں شریک نہیں کیا تھا اور اسلام کی خالص ’’فرقہ وار گورنمنٹ‘‘ قائم کردی تھی۔ کیا مولانا یہ فرمائیں گے کہ حضورﷺ نے اعلاے کلمۃ اﷲ کا بہتر اور زیادہ مؤثر طریقہ چھوڑ کر ایک کم تر درجے کا طریقہ اختیار فرمایا؟ یہی وہ باتیں ہیں جن کی بِنا پر میں سمجھتا ہوں کہ ہندو اقتدار کی آمد پر اس کے ساتھ مصالحت کرنے میں مولانا حسین احمد صاحب مرحوم جتنی دور چلے گئے ہیں ، اتنی دور تو انگریزی اقتدار کے ساتھ مصالحت کرنے میں سرسیّد اور ان کے ساتھی بھی نہ گئے تھے۔ یہ خیالات تو اسلام کے متعلق مسلمانوں کے اصولی نقطۂ نظر تک کو بدل ڈالیں گے اور ایک مسلمان ان کو قبول کرنے کے بعد رسول ﷺ اور اصحاب رسول صلوٰات اﷲ علیہم اجمعین کے مقابلے میں ہندستانی سیکولر زم کے بانیوں کو زیادہ انصاف پسند سمجھنے لگے گا۔
مولانا مرحوم کی یہ مداہنت میری نگاہ میں ایک بہت بڑامظلمہ ہے اور میں خدا سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ انھیں اس پر معاف فرمائے اور عامۃ المسلمین کو ایسے غلط نظریات کے برے اثرات سے بچاے۔ (ترجمان القرآن ، جولائی ۱۹۵۸ء)