جواب
اس اعتراض کے جواب میں ، مَیں دو چیزوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں ۔ یہ ’’ترقی یافتہ‘‘ اور ’’ضروریات‘‘ کے الفاظ ہیں ۔ سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ترقی کا مفہوم کیا ہے۔ لفظ ترقی کا تجزیہ کرنے کے بعد ہم یہ راے قائم کرتے ہیں کہ کوئی خاص غایت (goal)ہمارے پیش نظر ہو، جس تک ہم پہنچنا چاہتے ہوں ، تو اس گول کی طرف بڑھنے کا نام ترقی ہے اور اس سے مخالف سمت کو جانا رجعت اور ترقی سے محرومی ہے— اب اگر ہم اپنے لیے کوئی ایسا گول مقرر کرلیں جو باطل ہو تو اس کی طرف پیش قدمی کرنا ترقی نہیں ہے۔
سوال یہ ہے، موجودہ زمانے میں انسان کا جو گول مقرر کیا گیا ہے، کیا انسانی زندگی کا حقیقی مقصد اور غایت اُولیٰ وہی ہے جو جدید تہذیب نے قرار دی ہے؟ ظاہر بات ہے کہ کوئی شخص اس کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ خود مغرب میں اس وقت کثیر تعداد ایسے مفکرین کی موجود ہے جنھیں اب اس بات کا یقین نہیں ہے کہ اس تہذیب نے انسان کا جو گول مقرر کیا تھا، وہ صحیح ہے اب وہ بھی اس پر متفق ہیں کہ اس غلط گول کی طرف پیش قدمی ہی اس دَور کے سب مصائب اور مسائل کی اصل جڑ ہے — اس کے برعکس اسلام نے جو گول (goal) انسان کے لیے مقرر کیا ہے ہم اسی کو برحق سمجھتے ہیں اور اسی کی طرف بڑھنا ہمارے نزدیک ترقی ہے اور اس ترقی کے لیے اسلامی قانون ہی برحق اور ضروریات کے مطابق ہے۔ اس دَور میں جو ’’ترقی‘‘ ہوئی ہے، میں اس کو ایک مثال کے ذریعے سمجھاتا ہوں ۔ مثلاً انسان کو شیر پر قیاس کیجیے اور دیکھیے کہ شیر پہلے اپنے پنجوں سے شکار مارتا تھا۔ پھر اس نے بندوق بنانا سیکھ لی تو وہ بندوق سے شکار کرنے لگا۔اس کے بعد اسے توپ کا استعمال آگیا۔ اور آج اس نے ایٹم بم جیسے مہلک ہتھیار بنا لیے ہیں اور اسے بیک وقت ہزاروں لاکھوں جانوں کو ختم کرنے کی قدرت حاصل ہوگئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس سے انسانیت کی کیا ترقی ہوگی؟
اب اس اعتراض کے دوسرے پہلے کی طرف آئیے۔ جب ہمارے نزدیک موجودہ زمانے کی ترقی کا گول ہی غلط ہے تو پھر اس کی ضروریات بھی اسی طرح غلط ہیں ۔ اس صورت میں ہم اس زمانے کی ضروریات کو حقیقی ضروریات کیوں کر سمجھ سکتے ہیں ۔ اس زمانے کی ضرورت تو مثال کے طور پر بدکاری بھی ہے۔ اور بدکاری بھی ایسی کہ عورت گناہ تو کرے لیکن اسے حمل کا خطرہ نہ ہو۔ ظاہر ہے اسلام اس ضرورت کو ضرورت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں … چنانچہ پہلے آپ اس دَور کی وہ حقیقی یعنی genuineضروریات بتائیے، جو واقعی ضروریات ہیں تو پھر میں آپ کو بتائوں گاکہ اسلام ان کے لیے کیا قانون دیتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اس وقت موجودہ تہذیب کی بدولت دنیا کی تباہی اور خرابی کا واحد سبب یہ ہے کہ اس نے اپنے لیے بہت سی ایسی چیزوں کو ضروریات ٹھیرا لیا ہے جو حقیقت میں اس کی ضروریات میں نہیں اور یہ نتیجہ ہے انسان کے لیے ایک غلط گول مقرر کرنے اور ترقی کے نام پر اسے ہلاکت و تباہی کے جہنم کی طرف دھکیلنے کا۔ (ہفت روزہ ’’آئین‘‘ لاہور، ۲۲ نومبر ۱۹۶۷ء)