اسلامی نظریۂ جہاد سے متعلق ایک شبہہ

آپ نے ایک مضمون’’جہاد فی سبیل اﷲ‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے جو کہ تفہیمات حصہ اول اور ’’ جہادفی سبیل اللہ‘‘ کے نام سے میں چھپ چکا ہے۔اس مضمون میں ایک جگہ پر آپ نے ذیل کی عبارت تحریر کی ہے: ’’مسلم پارٹی کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ کسی ایک خطے میں اسلامی نظام کی حکومت قائم کرنے پر اکتفا نہ کرے، بلکہ جہاں تک اس کی قوتیں ساتھ دیں ، اس نظام کو اطراف عالم میں وسیع کرنے کی کوشش کرے۔یہی پالیسی تھی جس پر رسول اﷲﷺ اور آپ ؐ کے بعد خلفاے راشدین نے عمل کیا۔ عرب،جہاں مسلم پارٹی پیدا ہوئی تھی،سب سے پہلے اسی کو اسلامی حکومت کے زیر نگیں کیا گیا۔ اس کے بعد رسول اﷲ ﷺ نے اطراف کے ممالک کو اپنے اصول ومسلک کی طرف دعوت دی، مگر اس کا انتظار نہ کیا کہ یہ دعوت قبول کی جاتی ہے یا نہیں ،بلکہ قوت حاصل کرتے ہی رومی سلطنت سے تصادم شروع کردیا۔‘‘ اس عبارت پر بعض لوگ یہ اعتراض وارد کرتے ہیں کہ یہ تعلیم اسلام اور تاریخ اسلام کی صحیح نمائندگی نہیں ہے اور اس سے اس الزام کو تقویت پہنچتی ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلایا گیا ہے۔ آپ ترجمان میں توضیح فرمائیں کہ اس عبارت سے آپ کا مدعا کیا ہے اور اس کے لیے دلیل کون سی ہے؟
جواب

میں نے اس عبارت میں ایک تاریخی حقیقت کو بیان کیا ہے جس کی پشت پر نبیﷺ کا اسوۂ حسنہ اور خلفاے راشدین کا عمل موجود ہے۔ حدیث اور تاریخ کی کتابوں سے مجھے اس امر کا کوئی ثبو ت نہیں مل سکا کہ سلاطین روم وعجم کے خلاف فوج کشی سے پہلے ان ممالک میں صحابۂ کرام کو عام تبلیغی مہمات پر روانہ کیا گیا ہو اور پھر اس دعوت وتبلیغ کے نتائج کا انتظار کیا گیا ہو۔ نبی کریم ﷺ نے صرف سلاطین کو خطوط بھیجنے پر اکتفا فرمایا۔ اس کے ساتھ آپ نے یہ ضروری نہیں سمجھا کہ براہِ راست باشندگان روم وایران ومصر کو خطاب کریں اور ان کے جواب کا انتظار فرمائیں ۔ خلفاے راشدین کے عہد میں بھی صورت حال یہی رہی ہے۔ روم کی طرف سے پہلے غزوۂ موتہ، پھر غزوۂ تبوک اور آخر میں جیشِ اُسامہ کی مہم اس کی بیّن دلیل ہے۔ ایران کے خلاف حضرت ابو بکرؓ کی جنگ اور مصر پر حضرت عمرؓ کی چڑھائی بھی اسی کا ثبوت ہے۔
اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو اس کی وجہ بھی بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ ان ممالک کے عوام کو مخاطب کرنے کے بجاے صرف ان کے حکمرانوں سے کیوں خطاب کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان ممالک میں شخصی حکومتیں قائم تھیں اور مستبد فرماں روا اقتدار پر قابض تھے۔ ان کا برسر اقتدار ہونا ہی اشاعت اسلام کے رستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ان کی موجودگی میں نہ تو اس امر کا امکان تھا کہ دعوت عام باشندگان ملک میں پھیلائی جاسکے اور نہ عوام کو اتنی آزادی راے اور آزادی عمل حاصل تھی کہ اگر وہ اس دعوت کو حق پائیں تو اسے قبول کرکے اس پر عمل پیرا ہوسکیں ۔ ان حالات میں حکمرانوں سے نمٹے بغیر نہ اسلام کی اشاعت کماحقہ سرانجام پا سکتی تھی اور نہ اس کے نتائج و ثمرات رونما ہوسکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان سلاطین کے نام اپنے مکتوبات مبارکہ میں رسول اﷲﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر تم یہ دعوت قبول نہ کرو گے یا ہماری اطاعت تسلیم نہ کرو گے تو اپنی رعایا کی گمراہی کا وبال بھی تمھارے سر ہو گا۔
نبیﷺ اور صحابہ کے اس عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کسی ملک میں ایسی حکومت قائم ہو جس کے ہوتے ہوئے عوام کے لیے یہ عملاً ناممکن ہو کہ وہ دعوت اسلام کو سن کر قبول کرسکیں تو ایسی حکومت کو رستے سے ہٹانا ضروری ہے۔اس حکومت کو ہٹانا دراصل عوام الناس کو عقیدہ وعمل کی آزادی بخشنے کا ہم معنی ہے۔ اس کا مقصود یہ نہیں ہے کہ لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جائے، بلکہ اس کا مقصود صرف یہ ہے کہ ملک کے سیاسی نظام سے ان تمام موانع کا خاتمہ کردیا جائے جو حق کے ادراک اور اس کے اتباع میں مزاحم ہوتے ہیں ۔
یہاں اس بات کی صراحت بھی مناسب ہوگی کہ آپ جس عبارت کے متعلق سوال کررہے ہیں ، اس میں اسلامی دعوت وتبلیغ اور قانون صلح وجنگ کا کوئی مکمل اور جامع ضابطہ بیان نہیں کیا گیا ہے۔وہ تو ایک بڑے مسئلے کی طرف محض ایک سرسری اشارہ ہے۔ میں نے خاص اس موضوع پر اپنی کتابوں میں جو مفصل بحثیں کی ہیں ،ان سب کو چھوڑ کر ایک ضمنی بحث کے چند فقرات چھانٹ لینا کسی آئین ِ انصاف وتحقیق کی رو سے بھی صحیح نہیں ہوسکتا۔ ( ترجمان القرآن، جون ۱۹۵۶ء)