اسلام اور جمہوریت

جواب

آپ نے جمہوریت کے بارے میں جوتنقید کی ہے،اس کے تمام نکات اپنی جگہ درست ہیں ،لیکن اس مسئلے میں آخری راے قائم کرنے سے پہلے چند اور نکات کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔
اوّلین سوال یہ ہے کہ انسانی معاملات کو چلانے کے لیے اصولاً کون سا طریقہ صحیح ہے؟ آیا یہ کہ وہ معاملات جن لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں ،ان کی مرضی سے سربراہِ کار مقرر کیے جائیں اور وہ ان کے مشورے اور رضا مندی سے معاملات چلائیں اورجب تک ان کا اعتماد سربراہِ کاروں کو حاصل رہے،اسی وقت تک وہ سربراہِ کار رہیں ؟یا یہ کہ کوئی شخص یا گروہ خود سربراہِ کار بن بیٹھے اور اپنی مرضی سے معاملات چلائے اور اس کے تقرر اور علیحدگی اور کار پردازی میں سے کسی چیز میں بھی ان لوگوں کی مرضی وراے کا کوئی دخل نہ ہو جن کے معاملات وہ چلا رہا ہو؟اگر ان میں سے پہلی صورت ہی صحیح اور مبنی بر انصاف ہے تو ہمارے لیے دوسری صورت کی طرف جانے کا راستہ پہلے ہی قدم پر بند ہوجانا چاہیے، اور ساری بحث اس پر ہونی چاہیے کہ پہلی صورت کو عمل میں لانے کا زیادہ سے زیادہ بہتر طریقہ کیا ہے۔
دوسری بات جو نگاہ میں رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ جمہوریت کے اصول کو عمل میں لانے کی جو بے شمار شکلیں مختلف زمانوں میں اختیار کی گئی ہیں یا تجویز کی گئی ہیں ،ان کی تفصیلات سے قطع نظر کرکے اگر انھیں صرف اس لحاظ سے جانچا اور پرکھا جائے کہ جمہوریت کے اصول اور مقصد کو پورا کرنے میں وہ کہاں تک کام یاب ہوتی ہیں ، تو کوتاہی کے بنیادی اسباب صرف تین ہی پائے جاتے ہیں ۔
اوّل یہ کہ ’’جمہور‘‘ کو مختار مطلق اور حاکم مطلق(sovereign) فرض کرلیا گیا اور اس بِنا پر جمہوریت کو مطلق العنا ن بنانے کی کوشش کی گئی۔ حالاں کہ جب بجاے خود انسان ہی اس کائنات میں مختار مطلق نہیں ہے تو انسانوں پر مشتمل کوئی جمہورکیسے حاکمیت کا اہل ہوسکتا ہے۔اسی بِنا پر مطلق ا لعنان جمہوریت قائم کرنے کی کوشش آخرکار جس چیز پر ختم ہوتی رہی ہے وہ جمہور پر چند آدمیوں کی عملی حاکمیت ہے۔ اسلام پہلے ہی قدم پر اس کا صحیح علاج کردیتا ہے۔ وہ جمہوریت کو ایک ایسے بنیادی قانون کا پابند بناتا ہے جو کائنات کے اصل حاکم(sovereign) نے مقرر کیا ہے۔اس قانون کی پابندی جمہور اور اس کے سربراہ کاروں کو لازماً کرنی پڑتی ہے اور اس بِنا پر وہ مطلق العنانی سرے سے پیدا ہی نہیں ہونے پاتی جو بالآخر جمہوریت کی ناکامی کا اصل سبب بنتی ہے۔
دوم یہ کہ کوئی جمہوریت اس وقت تک نہیں چل سکتی جب تک عوام میں اس کا بوجھ سہارنے کے لائق شعور اور مناسب اخلاق نہ ہوں ۔ اسلام اسی لیے عام مسلمانوں کی فرداً فرداً تعلیم اور اخلاقی تربیت پر زور دیتا ہے۔ اس کا مطالبہ یہ ہے کہ ایک ایک فرد مسلمان میں ایمان اور احساس ذمہ داری اور اسلام کے بنیادی احکام کا اور ان کی پابندی کا ارادہ پیدا ہو۔ یہ چیز جتنی کم ہوگی،جمہوریت کی کامیابی کے امکانات کم ہوں گے۔ اور یہ جتنی زیادہ ہوگی ،امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔
سوم یہ کہ جمہوریت کے کامیابی کے ساتھ چلنے کا انحصار ایک بے دار مضبوط راے عام پر ہے اور اس طرح کی راے عام اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب معاشرہ اچھے افراد پر مشتمل ہو، ان افراد کو صالح بنیادوں پر ایک اجتماعی نظام میں منسلک کیا گیا ہو، اور اس اجتماعی نظام میں اتنی طاقت موجود ہو کہ برائی اور برے اس میں نہ پھل پھول سکیں اور نیکی اور نیک لوگ ہی اس میں ابھر سکیں ۔ اسلام نے اس کے لیے بھی ہم کو تمام ضروری ہدایات دے دی ہیں ۔
اگر مندرجہ بالا تینوں اسباب فراہم ہوجائیں تو جمہوریت پر عمل درآمد کی مشینری خواہ کسی طرح کی بنائی جائے،وہ کامیابی کے ساتھ چل سکتی ہے، اور اس مشینری میں کسی جگہ کوئی قباحت محسوس ہو تو اس کی اصلاح کرکے بہتر مشینری بھی بنائی جاسکتی ہے۔اس کے بعد اصلاح و ارتقا کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ جمہوریت کو تجربے کا موقع ملے۔تجربات سے بتدریج ایک ناقص مشینری بہتر اور کامل تر بنتی چلی جائے گی۔ (ترجمان القرآن، جون ۱۹۶۳ء)